پاکستان اور سعودی عرب کے مابین پائیدار تعلقات کی ضرورت

251

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ کر کے واپس تشریف لے گئے، اس دورے کو کامیاب ترین اور تاریخی قرار دیا گیا ہے، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی بابت کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دونوں ممالک کے مُجاز نمائندوں نے دستخط کیے، یہ معاہدات کب عملی قالب میں ڈھلتے ہیں اور یہ خواب کب اپنی تعبیر پاتا ہے، اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ شہزادہ محمد نے وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سعودی عرب کی جیلوں میں مُقیّد 2107 پاکستانیوں کی فوری رہائی کا اعلان کیا، اس سے اُن کے خاندانوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا اور یقیناًاُن کے دلوں سے دعائیں نکلی ہوں گی۔
اس وقت پاکستان معاشی مشکلات سے دوچار ہے، اسٹیٹ بینک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہیں، بین الاقوامی تجارت میں توازنِ ادائیگی ہمارے قابو سے باہر ہے، ہماری درآمدات اور برآمدات میں بہت زیادہ تفاوُت ہے۔ ہمارے قومی بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ مجوَّزہ آمدن سے بہت زیادہ ہے، یہ فرق بھی مزید داخلی یا بیرونی قرضوں کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔ ہمارے قومی میزانیے کی دو بڑی مدات دفاع اور بیرونی قرضوں کی اقساط اور اُن پر واجب الادا سود ہے، اس پر کوئی کٹ لگانا یا اس میں تخفیف کرنا ممکن ہی نہیں ہے، چنانچہ ناگزیر طور پر پہلے سے لیے گئے مجموعی قرضوں کی واجب الادا اقساط اور اُن پر عائد سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لینے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے، تاوقتیکہ ہماری برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے یا قیمتی معدنی ذخائر دریافت ہوجائیں یا چین کی طرح صنعتی ترقی کر کے ہم اشیائے صَرف کی عالمی مارکیٹ میں بڑے حصے دار بن جائیں، بظاہر مستقبلِ قریب میں اس کے آثار نظر نہیں آتے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں دوست ممالک سے امداد کے علاوہ آئی ایم ایف کی بھی دریوزہ گری کرنی پڑرہی ہے، اپنی قومی انا کو قربان کر کے اُن کی ناقابلِ قبول شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ سعودی عرب نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ہے اور ہم اُن کے زیرِ بارِ احسان ہیں۔ اس موقع پر بھی سعودی عرب نے ہماری مدد کی ہے اور ابوظہبی کو بھی اس پر آمادہ کیا ہے، اس میں کم شرحِ سود پر نقد زرِ مبادلہ اور پٹرولیم مصنوعات کی ادھار پر فراہمی شامل ہے۔ پس روایات سے ہٹ کر پرنس محمد بن سلمان کے والہانہ استقبال اور بے حد پزیرائی کا جواز موجود ہے، یہ ہماری ضرورت اور مجبوری ہے، نبی کریم ؐ نے فرمایا تھا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، (بخاری)‘‘۔ سو ہم بالاتر نہیں بلکہ فرو تر پوزیشن میں ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ گوادر پورٹ کے حوالے سے سعودی عرب کی غیر معمولی پیش رفت کے پیچھے امریکی آشیر باد بھی ہے تاکہ چین بلاشرکتِ غیرے اس کا اجارہ دار نہ بن سکے۔ چین نے گوادر، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے پاکستان کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی کا جو خواب دیکھا ہے، وہ حسبِ منشاپورا نہ ہوسکے، واللہ اعلم بالصواب۔
جس طرح کسی غریب پسِ منظر رکھنے والی ناکتخُدا کا حُسنِ بے مثال اس کے لیے نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ آفت بھی بن جاتا ہے، یہی صورتِ حال جغرافیائی تزویراتی پوزیشن کے اعتبار سے پاکستان کی ہے، ’’غریب کی جورو سب کی بھابھی‘‘ کے مصداق اس پر بھی سب کی نظریں ہیں اور ہم ہیں کہ نہ پوری طرح چین کے ہوپاتے ہیں اور نہ امریکا کا دامن چھوڑنے کی ہمت اپنے اندر پاتے ہیں۔ ’’عدوشرے برانگیزد کہ خیرما دراں باشد‘‘ کے مصداق اس وقت سعودی عرب کو بھی یمن، قطر اور ترکی کے حوالے سے کچھ مشکلات درپیش ہیں اور انہیں بھی دفاعی میدان میں ہماری ضرورت ہے، سو حالیہ غیر معمولی تعلقات دو طرفہ ضرورت پر مبنی ہیں۔
اگر سعودی عرب واقعی دل وجان سے ہماری مدد کرنا چاہتا ہے، ہمارا انتہائی قابلِ اعتماد سہارا بننا چاہتا ہے، ہمیں اقتصادی مشکلات سے نکال کر عالمی ساہوکاروں کے آگے سجدہ ریز ہونے سے بچانا چاہتا ہے، تو اس کا آسان اور قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ خلیجی ممالک کم از کم آئندہ پچیس برس تک اپنی غیر تربیت یافتہ اور پیشہ ورانہ افرادی قوت کے لیے پاکستان کو ترجیحِ اول بنائیں، جن فنی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں انہیں ماہرین درکار ہیں، پاکستان میں اُن کے لیے تربیتی مراکز بنائے جائیں اور پھر تربیت یافتہ ماہرین کو مشاہرات کے سعودی یاعالمی معیار پر وہاں مختلف شعبوں میں روزگار دیا جائے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے غیر ملکیوں پر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں، اقامے کی مدت کم کر کے ویزا تجدید کی فیس میں اضافہ کردیا ہے، جو لوگ کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں اپنے خاندانوں سمیت کافی عرصے سے وہاں مقیم تھے، اُن کے ہر فرد پر ٹیکس عائد کردیا ہے اور وہ اپنے خاندانوں کو واپس بھیجنے پر مجبور ہیں، اس حوالے سے بھی کوئی رعایتی پیکیج درکار ہے۔ بہت سے پاکستانیوں کو واپس ملک بھیج دیا گیا ہے، اُن کے ساتھ بھی نرمی برتنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو بیرونِ ملک افرادی قوت کے ذریعے زرِ مبادلہ کا جو سہارا ملتا تھا، سعودی حکومت کی موجودہ پالیسی کی وجہ سے اُس میں معتَدبہ کمی واقع ہوچکی ہے، اس سے پاکستان کے اندر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور ہماری معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی کم ہے اور رقبہ بہت زیادہ، سعودی عرب اگر اپنی زمینوں کو آباد کرے اور پاکستان کے کاشت کاروں کے ذریعے فاضل غلہ پیدا کر کے برآمد کرے تو اس سے پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس وقت خلیجی ممالک میں بھارتی، فلپائنی اور بعض دیگر ممالک کے کارکنوں کا تناسب زیادہ ہے۔
سعودی عرب خلیجی ممالک کا قائد ہے، اس کو دفاع کے لیے بھی پاکستان کی ضرورت ہے، اسے زیادہ وسیع کیا جاسکتا ہے اور صیغۂ راز میں رکھنے کے بجائے تمام چیزوں کو باقاعدہ شکل دی جاسکتی ہے تاکہ ہمارے پڑوسی ملک ایران کے شبہات کا ازالہ ہو اور انہیں احساس ہو کہ یہ دفاعی تعاون اور اشتراک دونوں ملکوں کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ خلیجی ممالک باہمی اشتراک سے پاکستان کی دفاعی صنعت کو جدید ترین بنانے میں بھی معاون بن سکتے ہیں۔آج کل ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ اور ’’ہائی برِڈ وار‘‘ کی باتیں ہورہی ہیں اور اس پر لکھا جارہا ہے، یہ ایک کثیر الجہات حربی تکنیک ہے، مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں، اس کے سدِّباب کے لیے بھی دونوں ملکوں کا تعاون بے حد ضروری ہے۔ نیز چین اور بھارت اپنی بری افواج کی افرادی قوت میں کمی کر کے اپنی دفاعی اور اِقدامی حربی صلاحیت کو ہائی ٹیک کی طرف منتقل کر رہے ہیں، بحری طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کو اس شعبے میں بھی اشتراک وتعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہییں۔ مستقبل کی جنگیں ہائی ٹیک کے ذریعے ہوں گی، سٹیلائٹ سے کنٹرول کی جائیں گی۔ لہٰذا خلائی راکٹ داغنے، اپنے سٹیلائٹ اسٹیشن قائم کرنے، اُن کا کمیونیکیشن اور دیدبان نظام عالمی طاقتوں سے ہٹ کر آزادانہ بنانا ہوگا، جس کا کوڈیفکیشن و ڈی کوڈ سسٹم اپنے کنٹرول میں ہو، اس کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، انٹلیکچول پراپرٹی کو عالمی معیار پر لانا ہوگا، الغرض بہت سے شعبے ہیں جن میں ہم ایک دوسرے کے معاون اور سہارا بن سکتے ہیں، اس کے لیے آپس میں شکوک وشبہات کو ختم کرکے بدگمانیوں کے نفوذ کے روزن بند کرنے ہوں گے اور:
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
کے تصور یعنی اخوتِ اسلامی اور ملتِ واحدہ کے جذبے کو پوری معنویت اور جامعیت کے ساتھ عمل کے قالب میں ڈھالنا ہوگا۔ امتِ مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں کئی برسوں سے بالواسطہ تصادم جاری ہے، سعودی عرب امریکا اور مغرب کے قریب ہے، اسرائیل اب اُن کے لیے گوارا ہے، ایران تاحال امریکا اور اسرائیل کا معتوب ہے، لہٰذا بوجوہ اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف زیادہ ہے۔ لیکن خلیجی ریاستوں میں بھی بھارت کا اثر ونفوذ بے انتہا پھیل چکا ہے، چند دن پہلے متحدہ عرب امارات کی عدالتوں میں عربی کے بعد ہندی کو دوسری زبان کے طور پر اختیار کرلیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ سعودی عرب کی 322 کمپنیوں کے مالکان یا شراکت دار بھارتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں بھارت کے اثرات پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے زیادہ ہیں، کاروبار کا ایک بڑا حصہ اُن کے قبضے میں ہے، بھارت اپنی فلمی صنعت کے ذریعے بھی مشرقِ وُسطیٰ میں تہذیبی نفوذ کرچکا ہے، وہ امریکا کے بعد اپنے آپ کو بحرِ ہند کی ایک فوجی طاقت کے طور پر مستحکم کرنے میں پوری دلجمعی سے لگا ہوا ہے، اُس کے روسی ساختہ طیارہ بردار جہاز بحیرۂ عرب میں موجود ہیں، حال ہی میں او آئی سی کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دینا پاکستان کے لیے انتہائی اذیت ناک ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے دینی مراکز سعودی عرب میں ہیں، اس تقدس وافتخار کو اُن سے کوئی چھین نہیں سکتا، سو مسلمانوں کا حرمین طیبین کے ساتھ ایمانی و روحانی رشتہ بھی تاقیامت قائم رہے گا، حج، عمرہ اور زیارات کے لیے مسلمانوں کی آمد ورفت کے سبب یہ سرزمین ہمیشہ ملتِ اسلامیہ کی عقیدتوں کا مرکز رہے گی۔ بعض کتب میں الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ روایت موجود ہے: ’’عربوں سے تین وجوہ سے محبت کرو: اس لیے کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی میں ہے اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی‘‘۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف اور بعض نے موضوع بھی کہا ہے، لیکن اس کی معنویت سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ عہدِ رسالت مآب ؐ سے پہلے سرزمینِ مکۃ المکرمہ میں کفارِ مکہ اور قریش کا غلبہ تھا، پھر عہدِ رسالت مآب ؐ اور قرونِ اُولیٰ کے ادوار سے لے کر آج تک سرزمینِ حجاز اسلام کے زیرِ نگیں ہے، حکومتیں بدلتی رہی ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ آنے والے ادوار میں وہاں کون برسرِ اقتدار ہوگا، لیکن حرمینِ طیبین کی سرزمین سے عقیدت کا رشتہ مسلمانوں کے دلوں میں پیوست رہے گا، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’(قیامت قائم ہونے سے پہلے) ایمان سمٹ کر مدینے کی طرف آجائے گا، جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بِل میں گھس جاتا ہے، (بخاری)‘‘۔