آج کل شدّومد کے ساتھ جھوٹی گواہیوں کا مسئلہ زیرِ بحث ہے، اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہیں، جھوٹے گواہوں کے لیے سزائیں تجویز کی جارہی ہیں، قانونِ شہادت میں مناسب ترامیم کی باتیں ہورہی ہے تاکہ پیسے لے کر جھوٹی گواہیاں دینے والے پیشہ ور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور جعلی مقدمات کا سدِّباب ہو۔ چنانچہ ہم نے مناسب سمجھا کہ اس حوالے سے شرعی موقف بیان کیا جائے تاکہ قانون کے شعبے سے وابستہ افراد اور قانون ساز قانونِ شہادت کی اصلاح کے وقت اسے پیشِ نظر رکھیں۔
جھوٹی گواہی کبیرہ گناہ ہے اور اس کی قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے قرآنِ کریم میں اسے شرک کے برابر ٹھیرایا ہے، ظاہر ہے کہ شرک ہر صورت میں ناقابلِ معافی جرم ہے، اکبر الکبائر ہے، یقیناًکوئی بھی بڑے سے بڑا گناہ شرک کے برابر نہیں ہوسکتا، لیکن چوں کہ مشرک بھی دلیلِ حق کو چھپاتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے، پس اس مشابہت کی وجہ سے جھوٹی گواہی کو جزوی طور پر شرک کے برابر ٹھیرایا گیا ہے اور یہ شدید ترین وعید ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’خُریم بن فاتک بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فجر کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کھڑے ہوگئے اور تین مرتبہ فرمایا: جھوٹی شہادت کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھیرانے کے برابر قرار دیا گیا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’سو تم بتوں کی ناپاکی سے اجتناب کرو اور جھوٹی بات سے بچ کر رہو، (ہر باطل سے ہٹ کر) صرف اللہ کے ہوکر رہو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھیراؤ، (الحج: 30-31)، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے شہادتِ حق کو چھپانے سے منع فرمایا ہے اور بتایا کہ یہ کام وہی کرتا ہے جس کا دل گناہ سے آلودہ ہو، فرمایا: ’’اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے گا، اس کا دل گناہگا رہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے، (البقرہ: 283)‘‘۔ شہادتِ حق دینی احکام کے بارے میں ہو یا معاملات کے بارے میں ہو، اس کی قباحت یکساں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن آیات اور ہدایت کو اس کے باوجود چھپاتے ہیں کہ ہم اسے لوگوں کے لیے کتاب (تورات) میں بیان کرچکے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں، (البقرہ: 159)‘‘۔ یہود ونصاریٰ کے علماء حق کو چھپاتے تھے، تورات میں نازل شدہ آیتِ رجم پر پردہ ڈالتے، اسی طرح تورات وانجیل میں نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی بعثت کی جونشانیاں بیان کی گئی ہیں اور جو روزِ روشن کی طرح اُن پر آشکار تھیں، انہیں چھپاتے تھے، اس آیت میں اُن کی اسی مذموم عادت کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی اَحَدیت اور وحدانیت کی شہادت دی اور پھر فرشتوں اور علمائے حق کی شہادت کو اپنی شہادت کے ساتھ ملا کر فرمایا: ’’اللہ، اُس کے فرشتوں اور علماء نے عدل پر قائم رہتے ہوئے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے، عبادت کے لائق فقط اُسی کی ذات ہے، وہ بہت غالب، حکمت والا ہے، (آل عمران: 18)‘‘۔
قرآنِ کریم نے شہادتِ کاذبہ سے اجتناب کی روش کو صفتِ حمیدہ کے طور پر بیان فرمایا ہے: سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی متعدَّد پسندیدہ صفات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور (رحمن کے خاص بندے) وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ کسی بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں، (الفرقان: 72)‘‘۔ قرآنِ کریم نے یہ بھی بتایا کہ شہادت صرف اللہ کی رِضا کے لیے دینی چاہیے اور اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی زَد کس پر پڑتی ہے، خواہ اپنی ذات یا اپنے قرابت داروں پر بھی پڑے، تب بھی ہر حال اور ہر صورت میں شہادتِ حق سے گریز نہیں کرنا چاہیے، نیز شہادتِ حق دینے کے حوالے سے نہ کسی امیر کی طرف داری کرنی چاہیے اور نہ کسی غریب پر ترس کھانا چاہیے، مزید یہ کہ شہادت دینے میں ہیر پھیر نہیں کرنا چاہیے کہ حق پوری طرح واضح نہ ہو بلکہ مشتبہ ہوجائے اور حق دار محروم رہ جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! ہمیشہ انصاف پرقائم رہو، اللہ کے لیے حق کی گواہی دیتے رہو، خواہ یہ (گواہی) تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف ہو، جس کی بابت گواہی دی جارہی ہے، وہ مالدار ہو یا فقیر (کسی رورعایت کے بغیر گواہی دو)، اللہ (تمہاری بہ نسبت) ان کا زیادہ خیر خواہ ہے، نفسانی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے حق سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم گواہی میں ہیر پھیر کروگے یا اعراض کرو گے، تو (سن لو) اللہ تمہارے سب کاموں سے اچھی طرح باخبر ہے، (النساء: 135)‘‘۔ نبی کریم ؐ نے جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا، آپ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ؐنے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھیرانا، ماں باپ کی نافرمانی، قتلِ ناحق اور جھوٹی شہادت، (بخاری)‘‘۔
ہماری رائے میں شہادتِ صادقہ کے علاوہ ایک شہادتِ مردودہ ہوتی ہے اور ایک شہادتِ کاذبہ۔ فرض کیجیے! ایک شخص ایک واقعے کا عینی شاہد ہے اور اس نے اپنی جانب سے دیانت داری سے گواہی دی، لیکن وکلا کی جرح اور پے در پے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وہ گھبرا گیا اور کہیں اس کے جوابات میں تضاد پیدا ہوگیا، تو عدالتیں بعض اوقات اس تضاد کی بنا پر اس شہادت کو رَدّ کر کے ملزَم کو بری کردیتی ہیں۔ عصرِ حاضر میں گواہ کی صداقت جانچنے کے لیے ’’Polygraph‘‘ نامی آلہ ہے، جو ملزَم پر سوالات کرتے ہوئے جواب دیتے وقت اُس کی نبض کی کیفیت کو ریکارڈ کرتا ہے اور اس سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ شہادت قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔
لیکن اس میں جزوی تضاد یا اس پر مرتب ہونے والی نفسیاتی کیفیت اس امر کی قطعی دلیل نہیں مانی جاسکتی کہ ہر صورت میں اُس گواہ نے فی الواقع منصوبہ بندی کر کے جھوٹی شہادت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام بعض معاملات میں دیانت اور قضا میں فرق کرتے ہیں، یعنی یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ بہر صورت یہ شہادت دیانتاً یا عند اللہ جھوٹی ہے، لیکن چوں کہ بعض واقعاتی شہادتیں عدالتی معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لیے عدالتیں انہیں رد کرکے ملزَم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیتی ہیں۔ اس طرح کے امور کی طرف رسول اللہ ؐ نے ایک حدیث مبارک میں بھی اشارہ فرمایا ہے: ’’تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، شاید تم میں سے کوئی فریق اپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ حجت باز ہو اور میں (دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں، تو (وہ یہ جان لے کہ) میں اُسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، پس وہ اسے (ہرگز) نہ لے، (بخاری)‘‘۔
رسول اللہ ؐ کو اللہ تعالیٰ حقائق اشیاء پر مطلع فرما دیتا تھا، لیکن عام قاضی کا مدار ظاہری شہادات وقرائن پر ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ؐ نے قضا اور دیانت میں فرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اس کے برعکس شہادتِ کاذبہ یہ ہے کہ کوئی شخص جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کے حق میں جھوٹی شہادت دیتا ہے، مثلاً: فرض کیجیے کہ قرائن قطعیہ یا شہادات سے ثابت ہوگیا کہ جس وقوعہ کے بارے میں وہ عینی مشاہدے کی بات کر رہا ہے، اس کے وقوع پزیر ہونے کے وقت وہ وہاں موجود ہی نہ تھا، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، رسول اللہ ؐ نے اس کے بارے میں وعید تو فرمائی ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی، تاہم اگر جھوٹی شہادتوں کا چلن عام ہوجائے تو اس کے سدِّباب کے لیے تعزیری سزا مقرر کی جاسکتی ہے اور اُسے عدالت کی صوابدید پر بھی چھوڑا جاسکتا ہے۔ ایک ہی شہادتِ کاذبہ یا مردودہ ایسی ہے جس کے لیے شریعت نے حد مقرر فرمائی ہے اور وہ ہے حدِ قذف یعنی کسی پر زنا کی تہمت لگائی گئی ہو اور قرآنی معیار کے مطابق چار شہادتوں سے یہ الزام ثابت نہ ہو تو گواہوں پر حد قذف نافذ کی جائے گی۔
میں نے یہ موقف بیان کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ اگر شہادتِ مردودہ اور کاذبہ میں فرق نہ کیا گیا اور ہر گواہ کی شہادت کے عدالتی معیار پر پورا نہ اترنے کے سبب رد ہونے پر اس کے لیے تعزیر مقرر کردی گئی، جو ایک تجویز کے مطابق عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے، تو پھر لوگ عدالتوں میں شہادت دینے نہیں آئیں گے، کون اپنے آپ کو خطرے سے دوچار کرنا چاہے گا، سو اس طرح حق داروں کے حقوق پامال ہوجائیں گے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب گواہوں کو (گواہی کے لیے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں، (البقرہ: 282)‘‘۔ اس کے تحت مفسرین کرام نے لکھا ہے: ’’اگر کسی واقعہ کے صرف ایک یا دو ہی گواہ ہوں تو ان پر شہادت دینا واجب ہے‘‘۔ کیوں کہ اگر وہ شہادت دینے سے انکار کریں گے تو کسی کا حق مارا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی واقعے کے عینی شاہدین زیادہ ہیں تو ہر ایک پر گواہی دینا لازم نہیں ہے، صرف اتنے گواہ درکار ہوتے ہیں جو شرعی یا قانونی اعتبار سے نصابِ شہادت کو پورا کرتے ہوں، سو یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ مثلاً: ساٹھ عینی شاہدین میں سے صرف چار نے کیوں شہادت دی، باقی نے کیوں نہ دی، ایسی صورت میں ہر عینی شاہد پر شہادت دینے کو شریعت لازم قرار نہیں دیتی، شریعت اور قانون کا تقاضا فقط یہ ہے کہ نصابِ شہادت پورا ہوجائے۔
ہمیں خدشہ ہے کہ اس مُہم کا زیادہ نشانہ ’’قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ اور اس کے تحت دائر مقدمات ہیں، اس کے نتیجے میں یہ قانون صرف قانون کی کتاب کی زینت بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے ایک جانب ہماری آئینی وقانونی ماہرین سے التجا ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا موقف بیان کریں، یہ موقف ہم نے اپنی دینی ذمے داری سمجھتے ہوئے اُن اہلِ مناصب کے لیے بیان کیا ہے جن کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔
نوٹ: زبان وبیان کے موضوع پر میں جناب اطہر ہاشمی کو ہمیشہ توجہ سے پڑھتا ہوں اور ان سے استفادہ کرتا ہوں، انہوں نے اشارتاً میرے ایک کالم میں لفظِ ’’اتباع‘‘ کو مؤنث استعمال کرنے پر گرفت کی ہے، کیوں کہ عربی میں یہ لفظ مذکر ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اردو میں استعمال کرتے وقت معنی (پیروی) ذہن میں ہوتا ہے، جیسے کتاب، کرسی عربی میں مذکر ہیں، مگر ہم اردو میں مؤنث استعمال کرتے ہیں، جنابِ ہاشمی کا شکریہ۔