احوال امت اور فکر سید ابوالاعلی مودودیؒ 

270

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت، بصارت، عقل اور ضمیر جیسی بنیادی صلاحیتیں عطا کیں جن کو وہ استعمال میں لاکر ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنوع خوبیوں سے بھی نوازا جن میں کرید و جستجو، تحقیق و تفتیش، سعی جہد اور اجتہاد بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ تحقیق وتفتیش اور تلاش وجستجو ہی ایک فرد یا قوم کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے روزمرہ مسائل کو حل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ انسان کے دل ودماغ میں جو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، وہ بھی تحقیق وجستجو سے دور ہوجاتے ہیں نیز مبھم اور غیر معین بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔ تیز رفتار سے آگے بڑھنا، ترقی کے منازل طے کرنا اور نت نئے مسائل کا حل نکالنا تحقیق وتفتیش کا خاصہ ہے۔ جب بھی انسان اس سے لاتعلق ہوجاتا ہے یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے تو زوال و پستی اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور یوں وہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔ علم و تحقیق ہی کی بدولت کسی قوم میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور اسی قوم کو دنیا میں غلبہ اور استحکام حاصل ہوجاتا ہے جو علم تحقیق سے چمٹتی رہتی ہے۔ جو قوم تحقیق و تلاش کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ دوسری قوموں کا آسانی سے نوالہ تر بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ مولانا مودودی کی زبان میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ ’’جو قوم سوچنا، تحقیق کرنا، معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے، جمود کا نتیجہ آخر کار انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کا نتیجہ آخر کار اس پر کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے پھر جب کسی قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اس کا غلبہ فکری حیثیت سے ہوتا ہے۔‘‘ غالب قوم اپنے وسائل سے پہلے مغلوب قوم کی فکر وتہذیب کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ جب فکری طور سے کوئی قوم دوسرے قوم کی نوالہ تر بن جاتی ہے تو اس کا قومی تشخص بھی ختم ہوجاتا ہے اور اس کے صفحہ ہستی سے مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔
مغلوب قوم کے بارے میں مولانا مودودی کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ ’’تحقیقات دوسرے کرتے ہیں ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں ان کو ترتیب دے کر ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں ایک نظام فکر وعمل مرتب دوسرے لوگ کرتے ہیں اور یہ مغلوب قوم ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی ہر چیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ عمل جتنا بڑھتا جائے گا اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ فنا بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ کے نزدیک تحقیق کرنا، علوم و فنون کو جمع کرنا، معلومات فراہم کرنا اور ان کو مرتب کرکے ایک تہذیب بنانا غالب قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ صرف سیاست اور فوج کی بدولت کسی قوم پر غالب نہیں آتی بلکہ اپنی پوری تہذیب کو مغلوب قوم پر غالب کردیتی ہے۔ مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ ذہنی غلبہ و استیلا کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر ہوتی ہے جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا میں چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد اور متبع بن کے رہنا پڑتا ہے۔ مولانا اس فطری قانون کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک فطری قانون ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و تفتیش کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو کوئی قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے‘‘۔ (تنقیحات)
جب تک مسلمان اسلام کے اصل ماخذو منبع سے اکتساب علم کرتے رہے اور صحیح غور وفکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے اس وقت تک اسلام نہ صرف زمانہ کے ساتھ حرکت کرتا رہا بلکہ مسلمان بھی عروج پر رہے۔ لیکن اہل اسلام کو آج وہ مقام حاصل نہیں ہے کہ جب وہ دنیا کی قیادت وسیادت کر رہے تھے۔ اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ جب قرآن پر غور وفکر کرنا چھوڑ دیا گیا، جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہوگئی، جب آنکھ بند کر کے پچھلے مفسرین اور محدثین کی تقلید کی جانے لگی، جب پچھلے فقہا اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنا لیا گیا، جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لیے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتا رک گئی۔ مسلمانوں نے علم و فن سے متعلق ہر چیز کو چھوڑا، اور علوم وفنون سے مغرب نے رشتہ جوڑا تو مسلمان خود بخود زوال کے شکار ہوگئے۔ مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ جب جہاد واجتہاد کا جھنڈا مسلمانوں نے پھینک دیا تو اس کو مغربی قوموں نے اٹھا لیا، مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کرعلم و عمل کے میدان میں آگے آئے یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے ان کو مل گیا، ان کے افکار و نظریات، علوم و فنون اور اصول تہذیب و تمدن دنیا پر چھا گئے ان کی فرماں روائی نے صرف اجسام کو ہی نہیں دلوں اور دماغوں کو بھی فتح کر لیا۔ آخر صدیوں کی نیند سے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ (تنقیحات)