نوبیل پیس پرائز: اتنی بھی کیا جلدی ہے؟

372

نوبیل پرائز کا خواب ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں کو راس نہیں رہا۔ یہ خواب ان کے لیے ہمیشہ ایک ایسا سراب ثابت ہوتا رہا ہے جس کی طلب اور تمنا میں وہ اس قدر دور جانکلتے رہے ہیں کہ واپسی کی راہ ہی بھول جاتے یا جب انہیں واپسی کا خیال آتا تو پیچھے کا منظر قطعی بدلا ہوا اور ناوافق ہوچکا ہوتا تھا۔ نوے کی دہائی میں جب سرد جنگ ختم ہوچکی تھی اور سرد جنگ کی تقسیم بھی ازکار رفتہ قرار پا چکی تھی تو مغرب کو سوویت یونین کے آہنی پردے اور دوستی کی دیوار کے پیچھے چھپے بھارت کا سراغ لگانے اور وہاں پوشیدہ امکانات سے فائدہ اُٹھانے کا خیال آگیا تھا۔ خطے کی کشیدہ صورت حال مغرب کے اس تجسس اور شوق کی راہ میں رکاوٹ تھی سو انہوں نے بھارت کے ساتھ امن کے کسی مسیحا کی تلاش شروع کر دی تھی۔ میاں نوازشریف آگے بڑھے اور انہوں نے جنوبی ایشیا کے ’’شاہ حسین‘‘ بننے کا راستہ اختیار کیا اور وہ امن کے عالمی علمبردار بن کر دور اور بہت دور جانکلے۔ شاہ حسین اردن کے بادشاہ تھے جنہوں نے فلسطینی تنازعے اور اوسلو معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں پس پردہ اور اعلانیہ اہم دار ادا کیا تھا۔ بعد میں دوہزار کی دہائی میں یہی نوبیل انعام کے جادو کا چراغ اسی ضرورت کے تحت پرویز مشرف کے سامنے رکھ دیا گیا وہ بھی اس جانب لپکتے لپکتے کہیں سے کہیں نکل گئے۔ عمران خان ابھی اس شوق سے دور ہی دکھائی دے رہے ہیں مگر ان کے خوشامدی حامی انہیں اپنے دو پیش رؤوں کی راہ پر ڈالنے کی جلدی میں ہیں۔ اچھا ہوا عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امن کے عالمی انعام سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس انعام کے حق دار نہیں بلکہ اس انعام کا اصل حق دار وہ ہوگا جو مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرکے برصغیر کے عوام کو امن اور ترقی کی منزل سے ہمکنار ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ عمران خان کو یہ اعلان دست برداری اس لیے کرنا پڑا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی حالیہ لہر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس مضبوط اعصابی اور صلح جوئی پر مبنی باوقار انداز اپناکر جنگ کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی بنا پر میڈیا میں یہ مہم چل پڑی تھی کہ عمران خان کو اس رویے کا مظاہرہ کرنے پر امن کا عالمی انعام ملنا چاہیے۔
بی بی سی نے تو یہ موازنہ بھی کیا اس جنگ میں مودی اپنے مقاصد میں کامیاب رہے یا عمران خان بالادست ٹھیرے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی اس مہم میں ہر لحاظ سے ناکام ٹھیرے۔ انہوں نے ففتھ جنریشن وار کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں اپنے لیے امکانات اور مواقع کی جو ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ تلاش اور تراش رکھی تھی اس ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ پر پاکستان کی عسکری، سیاسی اور سفارتی کامیابی سے سکتہ طاری ہوچکا ہے۔ اس پر واضح ہورہا ہے کہ جن پہ تکیہ ہے کہیں یہ پتے ہوا ہی نہ دیتے رہ جائیں کیوں کہ بھارت میں اتنا بھی دم خم نہیں جس کا تاثر مصنوعی طور پردیا جاتا رہا۔ بھارت کا جو غبارہ دو عشروں سے ’’شائننگ انڈیا‘‘
کے اسٹکر کے ساتھ فضاؤں میں اُڑ رہا ہے اس کی ساری ہوا امریکا نے بھری ہوئی ہے۔ جب امریکا نے ایبٹ آباد آپریشن کیا تھا تو بھارت نے ایسے ہی آپریشن کی خواہش کو روگ بنالیا تھا۔ اس خواہش کی کرچیاں بھمبر سے بڈگام تک اب جا بجا بکھری پڑی ہیں جو ایک بڑی نفسیاتی فتح ہے اگر پاکستان بالاکوٹ واقعے پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتا تو پاکستان ہمیشہ کے لیے ففتھ جنریشن وار ہار جاتا کیوں کہ اس سے بھارت کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کو تقویت، حوصلہ اور ولولہ مل جاتا۔
مودی کو دوسری شکست عملی محاذ پر ہوئی دو جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر گروا دیے۔ خاصا جانی نقصان بھی ہوا اور ابھی نندن کی دردناک اور سبق آموز کہانی اس پر مستزاد ہے۔ مودی نے جس سیاسی اور انتخابی فائدے کے لیے جنگی ماحول بنایا تھا وہ تدبیر کچھ یوں ناکام ہوئی کہ اب بھارت کی حزب اختلاف ان پر تاریخ کا دروغ گو ترین حکمران ہونے کی پھبتی کس رہی ہے۔ یوں مودی اور بھارت کا امیج بری طرح اُدھڑ چکا ہے۔ سفارتی کامیابی کا جو تاثر سشما سوراج کی او آئی اسی اجلاس میں شرکت سے دیا گیا تھا دوسرے ہی روز فتح کا مومی مجسمہ اسی فورم کی ایک قرارداد کی دھوپ کے باعث پگھل کر موم ہو گیا۔ امریکا کی کاسمیٹکس انڈسٹری کا مرہون منت سارا میک اپ دھل گیا ہے۔
ابھی نندن کی رہائی کے بعد عمران خان کے لیے نوبل پرائز کی ایک غیر ضروری مہم شروع ہوگئی۔ حکومت کا خوشامدی حلقہ تو نوبل انعام کے لیے ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ حد تو کہ اسمبلی میں قرارداد بھی جمع کرادی گئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ امن کا نوبل انعام حکومت پاکستان یا پاکستان کی اسمبلی کو دینا ہے۔ خوشامدیوں کے بس میں ہوتا وہ ایک درخواست لکھ کر عالمی ادارے سے نوبل انعام طلب کرتے۔ جنگ اور امن کے حالیہ کھیل میں پاکستان کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری ہونے کے باوجود ابھی ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں پایا تھا کہ جس کے لیے نوبل پرائز کی امید لگالی جائے۔ یوں بھی نوبل پرائز مسلمانوں کے کسی مجموعی کاز یا امن کی حقیقی کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ مغرب کی سیاسی ضرورت اور خواہش کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ابھی یہ بحث بھی ہورہی ہے کہ یہ واقعی انعام ہے بھی یا نہیں؟۔ اکثر یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو مغرب کے زاویۂ نظر سے امن واستحکام کے حوالے سے کوئی کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ کارنامہ بھی وہی کہلاتا ہے جو مغرب کی نظر میں کارنامہ سمجھا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ٹالنا کوئی کارنامہ نہیں رہا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں پاکستان اور بھارت جنگ کی دہلیز سے لوٹ کر واپس آتے رہے۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے اس ساری بحث کو بہت خوبصورت انداز میں سمیٹ دیا ہے۔ جس نوبل پرائز کو عمران خان کے آگے سجایا جانے لگا تھا انہوں نے شکریے کے ساتھ وہ جادو کا چراغ مودی اور بھارت کے آگے رکھ دیا ہے کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو پاکستان خود ان کے لیے نوبل پرائز کی درخواست کر سکتا ہے۔ امن کوسوں دور ہو، سرحدوں پر فوجی اور شہری مر رہے ہوں، کشمیر ایک قتل گاہ ہو تو امن کے انعام کی باتوں کو بے معنی ہی کہا جاسکتا ہے۔