جی حضور! بندہ حاضر ہے

411

دو مناظر ملا حظہ فرمائیے:
ایک منظر میں نیلے کوٹ، سفید شرٹ، گرے پتلون، براؤن شوز میں نہایا دھویا، شیو کیا، چمکتا، لشکارے مارتا شخص تامل فلموں کا کوئی ہیرو نہیں مطمئن اور ہر خوف سے بے نیاز بھارتی پائلٹ ہے جو پاکستان کی سرزمین پر بم گرانے کے ارادے سے آیا تھا لیکن امن اور خیر سگالی کے جذبات سے مغلوب پاکستانی حکام واہگہ باڈر پر بڑی اپنائیت کے ساتھ اسے بھارت کے حوالے کر رہے ہیں۔ امید ہے آئندہ دوچار برس میں اس مقام پر ایک یادگار بھی تعمیر کی جائے گی۔
دوسرے منظر میں پاکستان رینجرز کے جوان ہیں۔ ان کے کاندھوں پر ایک تابوت ہے۔ جس میں ایک پاکستانی کی لاش ہے۔ جسے بھارتی حکام نے چودہ برس قید رکھا، پھر پتھر مار مار کر شہید کردیا۔ یہ پاکستانی کون ہے اس کا کیا نام ہے۔ یہ بات اہم نہیں۔ یہ پاکستانی میں، آپ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ کسی بھی پاکستانی کے ساتھ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ سلوک کرسکتا ہے۔ ان مواقع پر ہماری حکومتیں حسن اخلاق کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے اعزاز واکرام کے ساتھ لاش وصول کرتی ہیں۔
ایک تیسرا منظر بھی ہے جس میں پائلٹ کو رہا کرنے کے جواب میں بھارت نے سرحد پر دو پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کردیا۔
اس منظر اور بھارت کے ہاتھوں اہل کشمیر کی ہلاکتوں کے دیگر مناظر کو زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں۔ خطے کے امن کے لیے ہمیں ایسے مناظر نظر انداز کرنے ہوں گے۔ ہم بھارت کے ساتھ نارملائزیشن چاہتے ہیں۔ ہندو تہواروں پر مبارک باد پیش کرنے کے ہمارے حکمران اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اندیشہ ہے کہیں بے دھیانی میں وہ ان ہلاکتوں پر بھی بھارت کو تہنیتی پیغام ارسال نہ کردیں۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارنے کے کامیاب آپریشن پر بھی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری نے امریکا کو مبارکباد کا پیغام دیا تھا۔ یہ یکطرفہ کوششیں، یکطرفہ مفاہمتیں بڑی کامیابیاں ہیں۔ عالمی برادری انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارے نارملائزیشن کے ان اقدامات کے نتیجے میں خطے میں خوشحالی آئے گی۔
بھارت مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے، مقبوضہ کشمیر میں اس نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے، گجرات میں بی جے پی کی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، مودی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے، پاکستان کو بنجر بنانے اور اس کے گلزاروں کو صحرا میں بدلنے کے لیے پاکستان کا پانی روک رہا ہے۔ ہمیں ان مصائب کے خاتمے کے لیے اللہ سے دعا کرنی ہوگی۔ دعا میں کشمیر کو زیادہ فوکس کرنا ہوگا کہ اللہ کشمیریوں کی سسکیوں، آہوں اور پکاروں کو سنیں اور بھارتی فوجوں کی بندوقوں، پیلٹ گنوں اور اسلحہ کے ڈھیروں میں کیڑے ڈال دیں۔
قابض بھارتی افواج ایک لاکھ کشمیریوں کی قاتل ہے، دسیوں ہزار عورتوں کی عصمت دری کی مجرم ہے، ایک لا کھ سے زائد کشمیریوں کو بینائی سے محروم کرچکی ہے۔ سب بجا، سب تسلیم۔ لیکن ہمیں اس تناؤ، کشیدگی اور جنگ کے ماحول کو ختم کرنا ہے جس کے لیے مقبوضہ کشمیر کی طرف سے آنکھیں پھیرنی ہوں گی۔ یہ بھارت سے نارملائزیشن کی قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنی ہوگی۔ جنگ بہت ہولناک چیز ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے امن وامان کا قیام ضروری ہے۔ بھارت خطے میں امن وامان خراب کرنے اور بزدلانہ حملے کرنے میں مصروف ہے لیکن ہمیں بھارت کو امن کی طرف لانا ہوگا۔ نارملائزیشن کی طرف لانا ہوگا۔ لہٰذا خطے کے امن اور انسانیت کے فروغ کے اپنی سول اور عسکری قیادت کے اقدامات کی تائید کریں۔ اس وقت قوم کو یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر بھارت سے بھی ایک گزارش ہے وہ یہ کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری اور بزدلی نہ سمجھے۔
ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ امن کے حصول کے لیے وہ بھی ایسے ہی طرزعمل کا مظاہرہ کرے۔ آپ کے آدھے گھر پرکوئی قبضہ کرلے، برداشت کریں۔ بدلے اور انتقام کا خیال بھی ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔ کوئی آپ کے گھر کے سیاچن جیسے غیر آباد حصے پر قابض ہوجائے تب بھی آپ کا رویہ یہی ہونا چاہیے۔ آپ کا بچہ کھیلتا ہوا پڑوسی کے گھر چلا جائے۔ پڑوسی پکڑ کراسے بند کردے۔ برسوں قید رکھنے کے بعد پتھر مار مار کر ہلاک کردے۔ آپ کو برداشت کرنا ہے تاکہ محلے میں امن قائم رہے۔ آپ کے گھر کی عورتوں کی عزت پامال کردی جائے۔ تحمل سے کام لیں۔ پڑوسی آپ کے وسائل لوٹ رہا ہو، پانی بند کررہا ہو۔ صبر کیجیے۔ پڑوسی آپ کے بچوں کو، بھائیوں کو مار رہا ہو، قتل کررہا ہو، روزانہ ان کی لاشیں گررہی ہوں، آپ کو خاموشی سے تجہیز وتکفین کا بندوبست کرنا ہے۔ بدلے کی آگ میں نہیں جلنا ہے۔ اگر آپ نے پڑوسی سے بدلہ لیا، تو یہ بھیانک حقیقت ذہن نشین رہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ جائے گی، جو ایٹمی جنگ کی طرح سب کچھ برباد کردے گی۔ یہ جنگ پھر کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔ اس جنگ سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آپ کو نارملائزیشن کی پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ آپ کی حکومت ایسا ہی کررہی ہے، یقیناًکچھ سوچ کر ہی کررہی ہوگی۔ آپ حکومت سے زیادہ سمجھ دار نہیں ہیں۔ آپ نا رملائزیشن کی پالیسی کو اپنائیے۔ پھر دیکھیے علاقے میں کیسے امن قائم ہوتا ہے۔ امن قائم ہوجائے تو پھر خوب روپیہ کمائیے، معیشت کو ترقی دیجیے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ باطل کے غلبے، ظلم اور استیصال کی موجودگی میں امن گمراہی اور بے غیرتی ہے تو ایسی باتوں پر کان نہ دھریں۔ امن کے دشمن چاہتے ہیں آپ کو امن کا نوبل پرائز نہ ملے۔
امن کے دشمن کہیں گے امن سے رہنا ہے تو پہلے کشمیر حاصل کرو پھر امن کی بات کرنا، افغانستان سے امریکا کا قبضہ ختم کراؤ پھر امن کی بات کرنا، عراق سے امریکی اثر ونفوذ کا خاتمہ کراؤ پھر امن کی بات کرنا، اسرائیل سے بیت المقدس واپس لو، عرب علاقوں سے اس کا قبضہ ختم کراؤ پھر امن کی بات کرنا، میانمرکے ظالم بدھسٹوں کا دماغ درست کرو پھر امن کی بات کرنا، لاکھوں مسلمانوں کے قاتل بشارالاسد سے حساب برابر کرو، اس کی حکومت کا خاتمہ کرو پھر امن کی بات کرنا، بھارت سے اپنا پانی واپس لو پھر امن کی بات کرنا، کنٹرول لائن پر بھارت روزانہ کی بنیادوں پر پاکستانی شہریوں کو شہید کررہا ہے، سرحدی خلاف ورزیاں کررہا ہے، پاکستان کے خلاف جنگی جنون پیدا کررہا ہے، پاکستان کے وجود کے درپے ہے، پہلے اس کے دانت کھٹے کرو، اسے اچھی طرح سبق سکھاؤ پھر امن کی بات کرنا۔ جو لوگ ایسی پر فریب باتیں کرتے ہیں وہ دنیا میں امن سے نہیں رہنا چاہتے، امن کے دشمن ہیں، ان کا تعلق جہادی تنظیموں سے ہے، وہ دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ جدید دنیا کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ انہیں اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
پاکستان کے حکمران دنیا کے وسیع الظرف حکمران ہیں۔ کرنل جوزف نے ایک پاکستانی کو کچل ڈالا، ہم نے اسے امریکا کے حوالے کردیا۔ ریمنڈ ڈیوس نے تین پاکستانیوں کو سرعام قتل کردیا۔ ہم نے اسے امریکا کے سپرد کردیا۔ ملا عبدالسلام ضعیف پاکستان میں افغانستان کے سفیر تھے۔ ہمارے اعلیٰ دماغوں نے سفارت کاری کی شاندار روایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں امریکا کے سپرد کردیا۔ عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہیں۔ امریکا نے خواہش کا اظہار کیا وہ اپنی بقیہ زندگی امریکا میں گزاریں انہیں امریکا کے سپردکردیا گیا۔ ایمل کاسی بہادر اور غیور بلوچ تھا اس کی موت امریکا میں لکھی تھی۔ ہمارے حکمران آسمانی فیصلے میں کیسے مداخلت کرسکتے تھے۔ ایمل کاسی کو امریکا کے سپرد کردیا گیا۔ ہر مرتبہ جی حضور کہہ کر ہم نے بندے امریکا کے حوالے کردیے لیکن انڈیا کے معاملے میں ہمارا کردار اتنا درخشاں نہیں تھا۔ بھارتی پائلٹ ابھے نندن کو بھارت کے حوا لے کرکے ہم تاریخ کے سامنے سرخرو ہوگئے۔ وما تو فیقی الا باللہ