بھرم ٹائٹ‘ مگر پتیلہ خالی

419

ہم نے ابھی نندن دیا‘ جیتا جاگتا انسان‘ مگر جواب میں بھارت نے ہمیں کیا دیا‘ قیدی ایک مظلوم اور لاچار شاکر اللہ کی لاش واپس کی‘ ان دونوں واقعات میں کوئی بارہ پندرہ گھنٹوں ہی کا وقفہ ہوگا‘ ایسا کوئی پہلی بار ہوا ہے؟ ہر گز نہیں‘ اس سے قبل ہم تو جنرل مشرف کے زمانے میں کشمیر خان بھی واپس کر چکے ہیں‘ بھارت کا مستند جاسوس تھا‘ ثبوت بھی موجود تھے‘ اسے بھی واہگہ کے راستے ہی بھجوایا گیا تھا‘ ہم کل کی طرح آج بھی امن کی بات کرتے ہیں اور بھارت بندوق کی بات کرتا ہے کنٹرول لائن ہو یا‘ عالمی سرحد‘ بھارت نے ہمیشہ کشیدگی کا ماحول رکھا‘ ایک طویل عرصے کے بعد دونوں ملکوں میں امن مذاکرات شروع ہوئے۔
1997 جون میں پاک بھارت مذاکرات کا عمل شروع ہوا تو بھارت کی جانب سے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر بات چیت کے لیے اسلام آباد آئے تھے‘ پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کی تھی‘ دو نوں ملکوں میں طے ہوا تھا کہ اور مذاکرات کے لیے آٹھ بنیادی نکات پر اتفاق ہوا‘ تین روز تک پنجاب ہاؤس میں یہ مذکرات چلتے رہے‘ بھارتی خاتون اخبار نویس برکھا دت اس وقت پہلی بار پاکستان آئی تھیں‘ آج وہ وہاں کی ٹائیکون تجزیہ کار ہیں‘ تین دن مذاکرات پنجاب ہاؤس میں جاری رہے ہر روز میڈیا بریفنگ ہوتی رہی مجال ہے برکھا دت سمیت کوئی بھارتی میڈیا پرسن پاکستان سے اوکھا‘ کوئی ٹیڑھا اور مشکل سوال کرسکا ہو‘ بھارتی میڈیا اور سیکرٹری خارجہ دبک کر بیٹھے رہے‘ مگر جب سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر واپس گئے تو میڈیا نے پوچھا مذاکرات کیسے رہے؟ سلمان حیدر نے جواب دیا وہ واضح کرکے آئے ہیں کہ ہم آزاد کشمیر چاہتے ہیں‘ ابھی نندن نے بھی بھارت جانے سے قبل ایک بیان ریکارڈ کرایا اور بھارتی میڈیا پر خوب برسے ہیں‘ لیکن ہمیں بھارت میں اس کے اپنائے جانے والے موقف کا انتظار رہے گا‘ اگر اس نے کوئی بڑھک ماری تو یہ کوئی اچھنبے والی بات نہیں ہوگی ہر بھارتی دہلی میں ہی شیر ہے‘ کیپل دیو بھارت کے باؤلر گزرے ہیں‘ پہلی سو میں سے پینسٹھ وکٹیں انہوں نے بھارت میں کھیلے جانے والے میچز میں لی تھیں‘ ابھی نندن ہو‘ سلمان حیدر‘ سب ایک مٹی سے بنے ہیں‘ ہندو بنیا بولتا کم ہے سازشیں زیادہ کرتا ہے‘ ہمارا معاملہ دوسرا ہے‘ ہم سازش نہیں کرتے‘ جواب میں وار کرتے ہیں‘ جری اور بہادر کرنل شیر خان ہماری پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں‘ ہماری سیاسی حکومتیں وزارت خارجہ کے بابوؤں پر زیادہ بھروسا کرتی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی نندن کی فوری‘ بلکہ مطالبہ کیے جانے سے قبل رہائی کو کیش کرانا چاہتی ہے اور وزیر اعظم کے لیے تو امن کا نوبل انعام کی بھی سفارش کی جارہی ہے‘ جلد باز تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات نے اس کے لیے ایک قرارداد بھی اسمبلی میں لانے کی تیاری کر رکھی ہے‘ بہت خوب‘ امن کا نوبل انعام اچھی خواہش ہے‘ لیکن اس کے لیے بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر میں‘ اور بھارت میں ہندو ازم کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہوئی چھوٹی قوموں کے لیے امن قائم کرانے میں کامیاب ہوتے‘ تو یہ مطالبہ سمجھ میں بھی آتا‘ اب آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ والی بات ہے‘ اسمبلی میں پہنچے اور اعلان کردیا‘ دلیل گھڑی جارہی ہے کہ بھارت پر نفسیاتی وار کیا ہے‘ یہ کیسا نفسیاتی وار ہے کہ بھارت کو او آئی سی میں اہمیت مل رہی ہے‘ ہمارے تحفظات کے باوجود اس کی وزیر خارجہ کا استقبال ہوا ہے‘ اسلامی ممالک کی تنظیم میں پاکستان کے تحفظات کی کیا قیمت لگی ہے‘ نوبل انعام لینے کی خواہش سے قبل یہ قیمت معلوم کرلی جائے۔
یہ بات درست ہے کہ ہم نے بھارتی حکومت کو انتباہ کیا کہ جو ہتھیار اس کے پاس ہیں‘ وہی ہتھیار ہمارے پاس بھی ہیں لیکن او آئی سی میں ہمارا مقام کیا ہے؟ ہم دوٹوک کہتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک کیخلاف ہماری سرزمین استعمال نہ ہو اور نہ ہی کوئی باہر سے پاکستان کیخلاف اپنی سرزمین استعمال کرے لیکن ہمارے سفارتی بابوہندو بنیے کے ایجنڈے کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں ہم صبر وتحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہے ہیں مودی سرکار جنگی جنون بھڑکا رہی ہے بھارت رات کی تاریکی میں پاکستان پر فضائی دراندازی کا مرتکب ہوا جامع اور بھرپور جواب ملا تو سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کشیدگی بڑھا رہی ہے مودی کی بی جے پی دعویٰ کر رہی ہے کہ فضائی دراندازی سے 28 نشستیں محفوظ ہوگئی ہیں لیکن ابھے نندن کا جسم بو چھوڑ چکا ہے‘ تمغوں کی جگہ شکست‘ ذلت اور رسوائی اس کے سینے پر سجی ہوئی ہے اس کی ’چتا‘ سرعام جل رہی ہے اور بی جے پی کا ’کریاکرم‘ ہوچکا ہے مودی کی سلگائی آگ کے شعلوں کے نتیجے میں بھارت بھسم ہو رہا ہے سارا بھارت Go Modi go کی چھترول کر رہا ہے کہ ’کوا‘ مار کر کہتے ہو کہ ساڑھے تین سولوگ مار دئیے‘ بس کرو یہ پروپیگنڈا‘ تمہارا بھرم ٹوٹ چکا ہے اور پتیلہ خالی ہے۔