ہم دل جلے لوگ!

371

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی بہت دل جلے لوگ ہیں، ذرا ذرا سی بات پر جلنے کڑھنے لگتے ہیں، اب ہم اسی بات پر کڑھ رہے ہیں کہ بھارت ہم پر جنگ مسلط کرنے پر تُلا ہوا ہے بلکہ عملاً اس نے کنٹرول لائن پر جنگ چھیڑ رکھی ہے اور بے گناہ شہریوں کو شہید کررہا ہے، لیکن ہمارے وزیراعظم نے نہایت بے نیازی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے گرفتار پائلٹ کو کسی درخواست کے بغیر تیسرے دن ہی چھوڑ دیا ہے۔ مانا کہ عالمی سطح پر ان کے اس اقدام کو بہت سراہا گیا ہے۔ عالمی طاقتوں نے وزیراعظم کی تحسین کی ہے اور اسے ان کی اخلاقی فتح قرار دیا ہے لیکن ہم پاکستانیوں میں ایک اضطراب برپا ہے۔ ایک دل جلے نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ہم تین دن میں تھانے سے اپنا موٹر سائیکل نہیں چھڑا پاتے کہ وزیراعظم عمران خان نے دشمن کا پائلٹ چھوڑ دیا ہے جو کسی خیر سگالی دورے پر نہیں، پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لیے حملہ آور ہوا تھا اور اپنے ٹارگٹ کی تلاش میں تھا کہ پاک فضائیہ کے شاہین نے اسے دبوچ لیا۔ اس کا فائٹر طیارہ آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گیا، جب کہ وہ خود اپنے طیارے سے گر کر مشتعل ہجوم کے نرغے میں پھنس گیا۔ قریب تھا کہ بپھرے ہوئے لوگ دشمن کے ہوا باز پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کرکے اسے جان سے مار دیتے کہ پاک فوج کے جوانوں نے اسے اپنے حصار میں لے لیا اور بحفاظت اپنی یونٹ میں لے گئے جہاں اسے چائے پلائی، اس کی خاطر داری کی اور اپنے افسران کو اس کی موجودگی کی اطلاع دی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ پاکستان نے بھارت کے دو حملہ آور طیارے مار گرائے ہیں اور ایک بھارتی ہوا باز کو گرفتار کرلیا ہے۔ پاکستانیوں میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے اور اپنی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی ہوا باز کو رہا کرنے کا اعلان کردیا اور لوگوں کے جذبات پر اوس پڑ گئی، وہ ابھی دوچار دن مزید اس فتح کا جشن منانا چاہتے تھے کہ عمران خان کے اعلان سے وہ جل بھن کر رہ گئے۔ ایک دل جلے نے کہا کہ ہم تو مرغی چور کو بھی تین دن میں نہیں چھوڑتے عمران خان نے دشمن کے پائلٹ کو کیسے چھوڑ دیا۔ بھارتی پائلٹ یہاں سے تو خوش و خرم گیا، اپنے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی اعتراف کیا لیکن بھارت پہنچتے ہی اپنے بیان سے مکر گیا۔ اب پاکستانی اس کے بیان پر مزید جل بھن رہے ہیں اور عمران خان کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں ’’دیکھ لیا جلد چھوڑنے کا انجام‘‘ بھارتی میڈیا تو اس خیر سگالی اقدام کو اپنی عینک سے دیکھتے ہوئے نئی نئی کہانیاں گھڑتا رہا۔
عمران خان بلاشبہ اس خطے میں امن چاہتے ہیں، ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ جنگ اپنی مرضی سے شروع تو کی جاسکتی ہے لیکن اپنی مرضی سے ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس خطے میں جنگ کی آگ بھڑکی تو اسے بجھانا ان کے بس میں ہوگا نہ نریندر مودی کے بس میں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نریندر مودی سے ایک نہیں تین مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے جواب دینا گوارا نہ کیا، اب پاکستانی اس بات پر بھی جل بھن رہے ہیں کہ عمران خان کو مودی سے تین مرتبہ رابطہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ایک بار رابطہ کافی نہ تھا؟ اگر اس نے ایک بار رابطہ کرنے پر جواب نہیں دیا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا۔ اب کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرکے بھارت کی فرمائش پوری کی جارہی ہے۔ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں۔وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ تاثر دیا ہے کہ عمران خان یہ سارے پاپڑ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کے لیے بیل رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک قرار داد بھی قومی اسمبلی میں جمع کرادی ہے جس میں نوبیل انعام دینے والے عالمی ادارے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عمران خان کو خطے میں قیام امن کی کوششوں پر نوبیل امن انعام دیا جائے۔ اس قرار داد پر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کا یہ تبصرہ بہت برمحل ہے کہ ہم اِس وقت بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں لیکن پی ٹی آئی کو نوبیل انعام کی سوجھ رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نوبیل امن انعام ایسے نہیں مل جاتا اس کے لیے درپردہ بہت سے عالمی محرکات بروئے کار آتے ہیں۔ کیا فواد چودھری اِن عالمی محرکات کا ادراک رکھتے ہیں؟ بہت سے دل جلے پوچھ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی نے قرار داد منظور کرلی تو کیا عمران خان کے لیے نوبیل امن انعام یقینی ہوجائے گا؟ غنیمت ہے کہ عمران خان نے خود ہی اس قرارداد سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔ اُدھر نریندر مودی کا یہ حال ہے کہ وہ کسی ملک کی مصالحانہ کوشش قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے روس کو سرخ جھنڈی دکھادی ہے، سعودی وزیر خارجہ کو نئی دہلی آنے سے روک دیا ہے، او آئی سی کی قرار داد بھی مسترد کردی ہے۔ عالمی رائے عامہ عمران خان کے رویے کی تحسین کررہی ہے لیکن وہ مودی کے جارحانہ اور جنگ جو یانہ رویے کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم عالمی منافقت کے دور میں جی رہے ہیں، ہم پاکستانی اس پر جلنے کڑھنے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔