معروف سوشلسٹ اور سیکولر دانش ور اور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے انگریزی اخبار دی نیوز میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور امت مسلمہ پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اسی حملے کے ٹھیک ٹھیک اندازے کے لیے آپ کو ڈاکٹر مبارک علی کے کالم کا طویل اقتباس ’’جھیلنا‘‘ پڑے گا۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں۔
On the other hand are those soci eties that are backward, decadent and have lost their creativity as well as a re spectable status in the comity of na tlons. In their case, historians make efforts to build a glorious past to satisfy the ego of that society. The creation of a grand past would create ambitions in society to revive such a past to replace their decaying present conditions. The revivalist approach to the past also shows the intellectual bankruptcy of a society not in a position to create new ideas to overpower their backwardness but one that relies on past val ues to improve its present condition What such societies have failed to un derstand is that values and institutions are a product of a certain time and space and cannot be revived under different circumstances
However, historians, intellectuals and artists in such socicties portray the past in such beautiful colours and present it in such a fascinating way that their societies almost become their prisoners. This is the position of the Muslim society, which is nostalgic about its past and derives its pride not from its present position but from past achievements. This attitude prevents any attempt to look forward to comprehend the weaknesses in their history and system and remove outdated traditions This approach has made Muslim society conservative and fearful about adopting the modernisation of their social and political structure
It is worth mentioning that there is no golden period in history. It is historians who make any period either golden or dark. If historians construct a golden period in a backward society, this would undermine any attempt to modernise society. When a society is falsely under the grip of a ‘golden age’, it loses its confidence to build on the new and energetic traditions needed by the modern time
In Pakistani politics, the slogan of the golden period’ of history is repeated. Generally, it is believed that past values are the solution to present problems. History is used as a tool to construct the past and popularise it with an object to assure people that cer- tain historical values still have the utlity and energy to change their condition and make them powerful to compete with prevalent challenges. This point of view is propagated socalled historical novels, short stories and films – especially the poetry of Hali(d1914) and Iqbal (d1938).
Such points of view tightly hold hostage a society by their narration of past achievements of the Muslim rulers who had conquered and defeated differ- ent nations and established their rule in faroff places. Till this is changed, Muslim society will remain a prisoner of the past and will not be able to achieve freedom of thought or creation of a modem society, which is a need of the time.
(دی نیوز کراچی۔ 18 فروری 2019)
اب اس تحریر کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔
’’دوسری طرف وہ معاشرے ہیں جو پسماندہ اور زوال پزیر ہیں۔ جو اپنی تخلیقی قوت اور قوموں کی صف میں قابل احترام مقام سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایسے معاشروں میں مورخین معاشرے کی انا کی تسکین کے لیے شاندار ماضی کا ذکر کرتے ہیں۔ شاندار ماضی کے تذکرے کے ذریعے مورخین معاشرے میں ماضی کی بازیافت یا احیا کی تمنا اور یہ خیال پیدا کرتے ہیں کہ ماضی کے بازیافت کے ذریعے زوال پزیر حال سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ماضی کی احیا کا رویہ معاشرے کے علمی یا دانش ورانہ دیوالیے پن کا عکاس ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ اپنی پس ماندگی سے نجات کے لیے نئے خیالات تخلیق نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنی موجودہ ابتر حالت کو بہتر بنانے کے لیے ماضی کی اقدار پر انحصار کرتا ہے۔ ایسے معاشرے یہ بات سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ اقدار اور ادارے خاص زمان و مکان کی پیداوار ہوتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ان کا احیا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم ایسے معاشروں کے مورخین، دانش ور اور فنکار ماضی کو اتنے دلکش رنگوں اور ایسے دل آویز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ایسے معاشرے اپنے ماضی کے قیدی بن جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے کا یہی حال ہے۔ مسلم معاشرہ ماضی پرست ہے، مسلم معاشرے کا فخر اس کا حال نہیں بلکہ ماضی کے کارنامے ہیں، یہ رویہ تاریخ اور نظام کی کمزوریوں کے فہم اور ازکار رفتہ روایات سے نجات حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس رویے نے مسلم معاشرے کو قدامت پسند بھی بنایا ہے اور اس میں اپنے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو جدید بنانے کے حوالے سے خوف بھی پیدا کیا ہے۔ یہاں یہ کہنا اہم ہے کہ تاریخ میں کوئی عہد زرّیں یا Golden Period نہیں ہے۔ یہ تاریخ ہے جو کسی دور کو روشن یا تاریک بناتی ہے۔ اگر مورخین پسماندہ معاشرے میں عہد زرّیں یا ’’گولڈن پیریڈ‘‘ تشکیل دیں گے تو معاشرے کو جدید بنانے کی کوشش کار گر ثابت نہ ہوسکے گی۔ جب معاشرہ ایک جھوٹ پر مبنی عہد زرّیں کی گرفت میں ہوتا ہے تو وہ عہد جدید میں نئی اور توانائی سے بھرپور روایات کی تخلیق کے حوالے سے اعتماد کھودیتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں (ہماری) تاریخ کے عہد زرّیں کا نعرہ تواتر سے بروئے کار آیا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ماضی کی اقدار عہد جدید کے مسائل کا حل ہیں۔ (ہمارے یہاں) تاریخ کو ایسے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ماضی کی تشکیل بھی ہوتی ہے اور اس تشکیل کو عوام میں مقبول بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ تاریخ کی بعض اقدار ابھی تک کارآمد بھی ہیں اور اتنی توانا بھی کہ ان کی موجودہ حالت کو بدل سکتی ہیں اور انہیں اتنا طاقت ور بناسکتی ہیں کہ وہ موجودہ چیلنجوں کا جواب بھی دے سکیں۔ یہ نقطہ نظر ہمارے تاریخی ناولوں، افسانوں، فلموں بالخصوص حالی اور اقبال کی شاعری میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ نقطہ نظر ماضی کے مسلم حکمرانوں کی فتوحات اور کارناموں کے بیان کے ذریعے معاشرے کو اپنا گرفتار بنالیتا ہے۔ جب تک یہ رویہ نہیں بدلے گا مسلم معاشرہ ماضی کا اسیر رہے گا اور وہ کبھی بھی خیال کی آزادی کا حامل نہ ہوسکے گا اور نہ وہ عصر حاضر کے مطابق جدید معاشرہ تخلیق کرسکے گا‘‘۔
مسلمانوں کو ماضی پرست ہونے کی ’’گالی‘‘ تو سبھی سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ دانش ور دیتے ہیں مگر ڈاکٹر مبارک علی زیر بحث کالم میں اس بات سے بہت آگے چلے گئے ہیں اور انہوں نے نام لیے بغیر پورے اسلام، پوری اسلامی تہذیب اور پوری اسلامی تاریخ ہی کا انکار کردیا ہے۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ انہوں نے یہ کہہ کر انجام دیا ہے کہ تاریخ میں کوئی عہد زرّیں یا Golden Peried نہیں ہوتا بلکہ تاریخ عہد زریں تخلیق کرتی ہے کیوں کہ ان کے بقول تاریخ خود کسی عہد کو روشن یا تاریک بناتی ہے۔
(جاری ہے)