مجرموں کے سہولت کار!

305

عزت مآب چیف جسٹس پنجاب سردار محمد شمیم خان کا ارشاد ہے کہ اگر جھوٹے گواہان کو سزا دی جائے اور آئندہ کے لیے گواہی دینے پر پابندی لگادی جائے تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے کیوں کہ جھوٹے گواہ کسی بھی مقدمے کا رُخ بدل سکتے ہیں۔ مجرموں کے یہ سہولت کار بے گناہوں کو مجرم اور مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جھوٹی گواہی انصاف کی فراہمی میں تو معاونت کرسکتی ہے مگر انصاف کی فوری فراہمی کے لیے کچھ اور بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثلاً اپیل در اپیل کا معاملہ۔۔۔ خاص کر دیوانی مقدمات۔ سوال یہ ہے کہ جب مدعی دعویٰ کی صداقت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر، اپیل کا حق کیوں دیا جاتا ہے؟ چلیے مان لیا کہ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر یہ حق تسلیم کرانے کے لیے مدعی کو حق ملکیت کا ثبوت دینا چاہیے۔ محکمہ مال اور سول کورٹ مدعی کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے تو سیشن کورٹ کو اس کی اپیل کی سماعت نہیں کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ اپیل کی سماعت کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جو مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کو مجروح کرنے کا باعث نہ بنے۔ ممکنہ طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ سیشن کورٹ کسی اپیل کی سماعت کرنے سے قبل یہ فیصلہ کرے کہ اپیل قابل سماعت ہے کہ نہیں، مگر ہمارے ہاں تماشا یہ ہوتا رہا ہے کہ مدعی اپیل در اپیل کے ذریعے مدعا علیہ کو اتنا زچ کردیتا ہے کہ وہ اس کی شرائط پر عدالت سے باہر معاملات طے کرلیتا ہے۔ گویا مدعا علیہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے کہ انصاف کی دیوی بانجھ ہے، انصاف کی ڈلیوری اس کے بس کی بات نہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ سول کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ سے اپیل ہوتے ہوئے سپریم کورٹ جا پہنچتی ہے اور کوئی یہ پوچھنے پر آمادہ نہیں کہ جھوٹے مقدمہ بازوں کو اتنی سہولت کیوں دی جاتی ہے؟۔ حالاں کہ ہمارے قانون میں جھوٹی گواہی اور جھوٹا مقدمہ دونوں ہی قابل گرفت ہیں اور سزائیں بھی مقرر ہیں مگر نافذ العمل نہیں۔ البتہ کبھی کبھی کوئی جج کوئی جسٹس جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن اس روایت کو آگے نہیں بڑھایا جاتا۔ بہاولپور سول کورٹ کے ایک محترم جج نے جھوٹا مقدمہ کرنے والے مدعی کو سزا سنائی تھی اور عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے جھوٹا مقدمہ دائر کرنے والے مدعی اور پیروی کرنے والے وکیل کو جرمانے کی سزا سنائی تھی، مگر المیہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں اچھی باتوں اور اچھے کاموں کو روایت نہیں بنایا جاتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مسلمان ہونے کے ناتے عربی زبان کا بہت احترام کرتے ہیں اور انگریزی زبان کے ’’لا‘‘ کو عربی زبان کا ’’لا‘‘ سمجھتے ہیں۔ واجب الاحترام چیف جسٹس پنجاب سردار محمد شمیم خان کا فرمان ہے کہ بار اور بنچ کے تعاون کے بغیر انصاف کی فراہمی مشکل ہے، حالات اور واقعات کے تناظر میں یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا بلکہ قرین قیاس ہوگا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بار اور بنچ اس معاملے میں ایک ہی پیچ پر ہیں۔ یہ کیسی بدنصیبی یا بدنظمی ہے کہ کوئی بھی وکیل کسی بھی مقدمے کی باقاعدہ سماعت کے حق میں نہیں۔ حالاں کہ پیشی کا مقصد مقدمے کی کارروائی کو بڑھانا ہوتا ہے مگر ہماری چھوٹی عدالتیں پیشی در پیشی کا مکروہ کھیل کھیلتی ہیں اور بڑی عدالتیں لیفٹ اوور کے ہتھوڑے برساتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو کیل ٹھوکنا ضروری ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نظام عدل میں کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں جو جج صاحبان اور جسٹس حضرات سے تاخیری حربوں کی وضاحت طلب کرسکے۔