ایسے دستور کو صبح بے نور کو‘ میں نہیں مانتا

304

سندھ اسمبلی میں کیا ہوا؟ ایم ایم اے کے رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید ایک ایسے ایوان میں تشدد کا نشانہ بنے جہاں وہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر انہیں بنیادی سیاسی حقوق دلانے پہنچے تھے‘ پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق سندھ اسمبلی میں وہ ایم ایم اے رکن ہیں‘ اور پارلیمانی روایت کے مطابق اسپیکر نے انہیں پہلی صف میں نشست الاٹ کی ہوئی ہے‘ ہر پارلیمانی لیڈر کا اسمبلی میں یہی استحقاق ہوتا ہے‘ عام انتخابات میں انہیں اس حلقے کے لیے بہترین امیدوار خیال کرتے ہوئے ٹکٹ دیا اور جمہور نے انہیں ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا‘ فردوس شمیم نقوی‘ بنیادی طور پر سول انجینئر ہیں اور تعمیرات ان کا بزنس‘ لیکن اسمبلی میں انہوں نے کیا کیا؟ انہیں تو حکمت کار ہونا چاہیے تھا لیکن وہ تخریب کار کیوں بن رہے ہیں‘ سید عبد الرشید‘ رکن اسمبلی ہی نہیں‘ ایک تنظیم سے وابستہ کارکن ہیں‘ یہ تنظیم کراچی کی تعمیر کے لیے کام کرتی ہے‘ عبدالستار افغانی سے لے کر نعمت اللہ خان تک‘ شہر کی خدمت کا ایک ایسا سفر ہے جس پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے‘ اس شہر نے پروفیسر غفور جیسا زیرک رہنماء اس قوم کو دیا‘ مظفر ہاشمی‘ محمد حسین محنتی‘ لئیق خان‘ اسد اللہ بھٹو جیسے پارلیمنٹیرین دیے‘ یہ سب اجلے کردار کے مالک تھے‘ چائنا کٹنگ کا کوئی داغ ان کے دامن پر نہیں لگا‘ بھتا خوری کی کالک جن کے چہرے پر لگی یہ انہیں ہی مبارک۔
تحریک انصاف نے حالیہ انتخابات میں جیسے تیسے کامیابی سمیٹی ہے اس سے کون واقف نہیں؟ ہم واقف ہیں جانتے ہیں یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اس ماحول میں سید عبد الرشید پی ایس 108 سے کامیاب ہوئے‘ بہتر تھا کہ تحریک انصاف خدمت کے لیے آگے بڑھتی‘ عوام کے زخموں پر مرہم رکھتی‘ لیکن یہ تو روایتی جماعت ثابت ہوئی اور بڑھک باز‘ ہلڑ باز گروہ کہلوانا شاید اسے زیادہ پسند ہے‘ کسی بھی جمہوری سیاسی نظام میں منتخب اسمبلی اور اس میں اپوزیشن لیڈر کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام کی بات‘ عوام کے لیے اور حق کی بات باطل کے سامنے کرنے کی ہمت کرے گا‘ سندھ اسمبلی قائم ہوئے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں‘ اپوزیشن لیڈر یہ تو بتائیں کہ صوبائی وزیر کے مساوی استحقاق رکھنے کے سوا انہوں نے عوام کی آواز کہاں اٹھائی ہے؟ کراچی کچرے میں تبدیل ہوچکا ہے‘ سڑکیں‘ گلیاں خود پر دوڑنے والی قیمتی گاڑیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں‘ ایسے میں موٹر سائیکل پر اسمبلی جانے والے رکن پر اسی لیے ہاتھ اٹھایا گیا کہ وہ کراچی کی بات کرتا ہے‘ شہر میں امن چاہتا ہے‘ بھتا خوری کے سامنے بند باندھ رہا ہے‘ یہی بات ایلیٹ کو کسی صورت پسند نہیں سید عبدالرشید‘ شائشہ اطور اور دھیمے لہجے والے مگر اونچی اڑان اورکارکردگی غیر معمولی اور متاثر کن ‘ لیاری کے مسائل سے کراچی کے مسائل تک‘ ملکی ایشوز سے بین الاقوامی معاملات تک‘ ہر سیشن میں اپنی ذہانت، قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا ہے یہ نوجوان جب ٹف ٹائم دینے لگا تو پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے تشدد کے خاکے میں رنگ بھرا۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی کے دوران نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، اپوزیشن لیڈر کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے والے ایم ایم اے کے رکن عبدالرشید پر تحریک انصاف کے ارکان نے حملہ کر کے اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا تاریخ میں پہلی بار قائد حزبِ اختلاف کے خلاف اپوزیشن رکن کی تحریک استحقاق منظور کر لی گئی بات تو یہاں سے شروع ہوئی تھی قائد حزبِ اختلاف نے پوائنٹ آف آرڈر پر قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی، وزیر توانائی امتیاز شیخ نے چیئر سے کہا کہ انہیں وقفہ سوالات کے بعد بولنے کی اجازت دی جائے، جس پر قائد حزبِ اختلاف نے کہا کہ ہماری بات نہ سنی گئی تو ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے، اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور ڈیسک بجانا شروع کر دیے۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ایوان کو جمہوری انداز میں نہیں چلایا جا رہا۔ انہوں نے تحریک لبیک اور ایم ایم اے کے ارکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کے لے پالک ہیں، اُنہیں ہماری صفوں سے نکالا جائے، ان ریمارکس پر ایم ایم اے کے رکن عبدالرشید نے احتجاج کیا‘ دونوں میں سخت تلخ کلامی ہوئی سندھ اسمبلی میں جو مناظر دیکھنے کو ملے، ایسی ہی ہنگامہ آرائی قومی اسمبلی میں بھی معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہے سندھ اسمبلی میں ہونے والا ہنگامہ بہت افسوس ناک تھا قائد حزبِ اختلاف نے جو بھی کیا یہ کسی بھی طور مناسب نہیں تھا‘ سندھ کی حزب اختلاف اگر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ساتھ ہوتے ہوئے سلوک کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھے تو بہتر ہوگا قومی اسمبلی میں کمیٹیوں کی تشکیل پر جو تنازع چلا آ رہا تھا وہ شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے ختم ہو گیا تھا، لیکن پھر اچانک بعض وفاقی وزراء نے شہباز شریف کے خلاف لفظی جنگ شروع کر دی بھارت کے ساتھ کشیدگی کے ماحول کا نتیجہ کہ اب یہ معاملہ قدرے ٹھنڈا ہو گیا ہے، لیکن ٹریلر تو اب بھی چلتے رہتے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مسئلہ اسی طرح حل کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح قومی اسمبلی میں حل کر لیاگیا ہے۔ اگر وفاق میں قائد حزبِ اختلاف کا یہ استحقاق مان لیا گیا ہے کہ اُنہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے، تو سندھ میں بھی اس کی پیروی کی جا سکتی ہے اگر سندھ اسمبلی کے رولز اِس سلسلے میں کوئی رکاوٹ ہیں تو ان میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ایم ایم اے کے رکن پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے جو تشدد کیا وہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے، اس کا نقصان خود اپوزیشن ہی کو ہوا ہے۔