نیوزی لینڈ میں دہشت گردی ، پرامن ملک ہونے کے دعوؤں کی قلعی اترگئی

230

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں موجود 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں جمعہ ایک دہشت گرد کی فائرنگ کے واقعہ جس میں 50 افراد شہید اور چند زخمی ہوئے ہیں نے جہاں پورے نیوزی لینڈ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں پر اس سانحہ کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کو 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد دنیا بھر میں پھیلنے والے مسلمان مخالف جذبات اسلام فوبیا کا شاہ خ سانہ قرار دیا ہے۔ عمران خان کا یہ بیان پاکستانی ہی کیا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان کے تاثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت میں جنگی کشیدگی کے باعث بھارت میں مسلمانوں کے جذبات کو اشتعال دلایا جارہا ہے مسجد پر حملے کو بھی مسلمانوں کو مزید اشتعال دلانے کی سازش کہا جاسکتا ہے۔ اہم بات تو یہ بھی کہ نیوی لینڈ کی مساجد پر فائرنگ کرنے والا تنہا تھا مگر اسے نیوزی لینڈ کی پولیس موقع پر اور نہ ہی بعد میں تاحال گرفتار کرسکی۔ جس کی وجہ سے یہ کہنا آسان ہے کہ پرامن کہلانے والے نیوزی لینڈ کے پیچھے پولیس کا وہاں کے خفیہ اداروں کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردوں کی اپنی مہربانی رہی کہ وہ ایسی کارروائی خود ہی نہیں کیا کرتے ہیں۔ اگر پولیس صلاحیت مند ہوتی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ملزم بریٹن ٹیرنٹ کو اس کی مجموعی طور پر تقریبا نصف گھنٹہ طویل فائرنگ کارروائی کے باوجود نہیں پکڑ سکتی۔ نیوزی لینڈ کے واقعہ نے یہ بھی ثابت کردیا کہ دہشت گرد مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جو عبادت گاہوں پر حملوں سے بھی گریز نہیں کرتے اور دہشت گردی کے خونی واقعات صرف پاکستان میں نہیں بلکہ اپنے آپ کو کرائم فری کنٹری ہونے کا دعوٰی کرنے والے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں اور وہ زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اس واقعہ سے نیوزی لینڈ کے سیکورٹی کے نظام پر سوالات اٹھنا ایم بات نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے لیے خطرناک بات تو یہ ہے کہ وہاں رہنے والے غیر ملکیوں خصوصا مسلمانوں میں عدم تحفظ کا رجحان پیدا ہوچکا ہے جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی ٹیم نے جو وہاں ٹیسٹ میچ کے لیے موجود تھی اپنے آپ کو ہوٹل تک محدود کرلیا ہے اور آئندہ میچ میں شرکت نہیں کرنے کا فیصلہ کرکے وطن واپس جارہی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسیڈا آرڈن کا یہ کہنا کہ دو مساجد پر واقعہ سے یہ دن ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اس بات کا اعتراف ہے کہ ملک کے سیکورٹی کے نظام میں خامیاں ہیں۔ ان کا یہ کہنا بہت ہی تشویشناک امر ہے کہ دہشت گرد کی گاڑی میں بم بھی موجود تھے ، جس مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ خوفناک عزائم کے ساتھ مساجد میں پہنچا تھا۔ دہشت گرد برینٹن ٹرسٹ آسٹریلین نڑاد ہے آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی دہشت گرد کے آسٹریلوی شہری ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا انتہا پسند اور متشدد دہشتگرد ہے جس نے مسجد پر فائرنگ کر کے کئی معصوم انسانی جانوں کو ختم کیا جس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد ان لوگوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے جو مسلمانوں خصوصا پاکستانیوں کے خلاف زہریلا پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اب ان کی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی ہے۔
حیثیت مشکوک