جاوید احمد غامدی اور ان کے زیر اثر ان کے شاگرد اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ عہد جدید میں ریاست اور مذہب اور سیاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے غامدی صاحب کی ’’جدیدیت‘‘ اتنی ’’ترقی یافتہ‘‘ ہوگئی تھی کہ چند سال پہلے انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک طویل مضمون پوسٹ کیا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ہم جنس پرستی کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کی تھی۔ معلوم نہیں اس سلسلے میں غامدی صاحب کی جدیدیت کا اب کیا حال ہے۔ البتہ ان کے شاگرد رشید خورشید ندیم اپنے کالموں میں مذہب کو اجتماعی زندگی سے باہر کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ’’جنگ اور مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت کالم تحریر فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ عہد جدید میں مذہب کی بنیاد پر کسی جنگ کا امکان اور جواز نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کیا ہے خود خورشید ندیم کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ختم نبوت کے ساتھ ، کیا مذہبی جنگوں کا دور بھی ختم ہوا؟ کیا اب مذہب کے لیے یا مذہب کے نام پر کوئی جنگ نہیں لڑی جاسکتی؟
کوئی مذہبی ریاست نہیں پائی جاتی کہ وہ خدا کے حکم سے یا اس کے کسی فرستادہ کے ہاتھوں قائم ہوئی ہو۔ اس طرح کی ریاست، آخری بار اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدؐ کی قیادت میں قائم ہوچکی۔ خلافتِ راشدہ اسی کی توسیع تھی۔ اب کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی حکومت دراصل حکومت الٰہیہ ہے۔
آج بنیادی حقوق کے باب میں کوئی ریاست ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو مذہب یا رنگ و نسل کی بنیاد پر شہریوں میں فرق کرتا ہو۔
ایک اور اہم تبدیلی یہ آچکی کہ معاشی اسباب کی تلاش میں نقل مکانی اب بہت عام ہوچکی۔ ترقی یافتہ ریاستوں کو انسانی وسائل کی ضرورت ہے اور انسانوں کو معاشی مواقع کی۔ اس باہمی ضرورت کے تحت یہ ریاستیں شہریت کا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ آج کے دور میں چند مستثنیات کے علاوہ، ہر ملک میں ہر مذہب کے ماننے والے موجود ہیں اور ریاست مذہب کے باب میں غیر جانب دار ہے۔ ریاست کا قانون، جمہور کی رائے سے بنتا ہے اور شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انفرادی معاملات میں جس مذہب پر چاہیں، عمل کریں۔
آج ریاستوں کے مابین اگر باہمی تصادم کا کوئی امکان موجود ہے تو اس کا سبب دنیاوی مفادات ہوں گے، مذہب نہیں۔ تاریخی اعتبار سے بھی مذہب کے لیے جنگ کا دور ختم ہوچکا۔۔۔
آج دنیا میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی۔ اب عملاً یہ ممکن نہیں رہا کہ دنیا میں مذہب کے عنوان سے کوئی جنگ ہو۔ آج دنیا میں نہ نظری بنیادوں پر مذہب کے نام پر کوئی جنگ ہوسکتی ہے، نہ عملی اسباب سے: تاہم اگر کسی خطہ زمین میں سیاسی نظم و نسق مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور کوئی اجتماعی مفاد یا مصلحت انہیں جنگ پر مجبور کرتی ہے تو وہ الٰہی قوانین اور احکام کے پابند ہوں گے، جس طرح وہ زندگی کے دیگر معاملات میں ان کے پابند ہیں۔ اسے ہمارے دینی لٹریچر میں فقہ الجہاد کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 2 مارچ 2019)
ہماری مذہبی روایت میں ختم بنوت ’’تکمیل پیغام‘‘ کی علامت ہے مگر خورشید ندیم نے اسے ایک ہی ہلّے میں ’’نقصِ پیغام‘‘ کی علامت بنادیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ہرگز یہ نہ کہتے کہ نبوت ختم ہوگئی تو دنیا میں مذہب کی بنیاد پر جنگ کا امکان بھی ختم ہوگیا۔ خورشید ندیم کے اس تجزیے میں دوسری بڑی گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کی نبوت کو آپؐ کے زمانہ مبارک تک محدود کردیا ہے۔ خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ میں تو مذہب کی بنیاد پر جنگ کا امکان تھا مگر اب چوں کہ آپؐ دنیا میں موجود نہیں اس لیے دنیا میں آپؐ کے لائے ہوئے دین یا مذہب کی بنیاد پر کسی جنگ کا امکان بھی موجود نہیں۔ واہ کیا تصورِ اسلام ہے؟ کیا تصورِ رسالتؐ ہے؟۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے حوالے سے پوری امت اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ اسلام کامل بھی ہے اور ہر زمانے کے لیے بھی ہے مگر خورشید ندیم نے جنگ کے حوالے سے اسلام کو رسول اکرمؐ کے زمانے تک محدود اور موثر کردیا ہے۔
اسلام پر خورشید ندیم کے ’’ظلم‘‘ کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے یہ اعلان بھی فرما دیا کہ رسول اکرمؐ کے عہد اور خلفائے راشدین کے زمانے کی حکومت تو حکومت الٰہیہ کہلائے گی مگر اب کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی قائم کردہ حکومت، حکومت الٰہیہ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہاں بھی خورشید ندیم نے اسلام پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے حکومت الٰہیہ کو رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کی حکومت تک محدود کردیا ہے۔ خورشید ندیم خیر سے بڑے ’’ڈیموکریٹ‘‘ ہیں۔ جمہوریت کے ایسے عاشق کہ میاں نواز
شریف ان کے ہیرو ہیں۔ لیکن دوسری جانب ان کے فہم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حکومت الٰہیہ کے تصور کو ’’شخص‘‘ بنادیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ حکومت الٰہیہ کے تصور کو ’’شخصیات‘‘ تک محدود نہ کرتے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسلام ایک عقیدہ ہے، ایک اصول ہے اس کا رنگ، نسل، زبان، جغرافیے، شخص یا خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ مطلب یہ کہ اسلام ایک اصول کی حیثیت سے جب اور جہاں بروئے کار آئے گا وہ اسلام ہی رہے گا۔ چناں چہ اسلام کی بنیاد پر جب بھی کبھی کہیں کوئی حکومت قائم ہوگی وہ حکومت الٰہیہ ہی کہلائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی مگر عمر بن عبدالعزیز منظر پر طلوع ہوئے تو انہیں خلافت راشدہ کی علامت قرار دیا گیا۔ اس لیے ہماری تاریخ انہیں عقیدت سے پانچواں خلیفہ راشد بھی کہتی ہے۔ حالاں کہ ان کا دور حکومت دو سال سے بھی کم تھا۔ اس تجربے سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ حکومت کا الٰہیہ کا کسی شخصیت یا زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام دائمی حقیقت ہے، چناں چہ جہاں اسلام اپنی روح کے ساتھ ظاہر اور نافذ ہوگا وہیں حکومت الٰہیہ وجود میں آجائے گی۔ اس بات کو ہم جمہوریت کے حوالے سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جمہوریت ایک خیال، ایک Idea اور ایک اصول ہے۔ جب جہاں جمہوریت کے اصول کے مطابق جمہوری حکومت وجود میں آئے گی اسے ’’جمہوری‘‘ کہا جائے گا۔ خواہ ایسی جمہوری حکومت امریکا میں قائم ہو یا یورپ میں ایشیا میں قائم ہو یا افریقا میں۔ آج قائم ہو یا ایک ہزار سال کے بعد۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانی ساختہ جمہوریت تو ’’دائمی‘‘ ہوسکتی ہے مگر اللہ کے دین کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت الٰہیہ ’’دائمی‘‘ نہیں ہوسکتی۔ وہ بیچاری بس رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کے عہد کے لیے تھی۔ آخری غامدی صاحب اور ان کے شاگرد صاف کیوں نہیں کہتے کہ انہیں عہد جدید میں اسلام درکار ہی نہیں ہے۔ انہیں اسلام کو ’’قسطوں میں‘‘ ازکارِ رفتہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں، وہ ایک ہی ہلّے میں پورے اسلام کا انکار کیوں نہیں کردیتے؟۔
بلاشبہ رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کا دور بہترین ہے۔ ان ادوار کا پورے جلال و جمال کے ساتھ لوٹ کر آنا ممکن نہیں۔ مگر رسول اکرمؐ نے ایک حدیث مبارکہ میں صاف فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا غلبہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی مگر اس کے بعد زمانہ ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گا۔ اس حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ خلافت کے تجربے کا احیا ہو کر رہے گا اور ظاہر ہے کہ اپنے روحانی اور اخلاقی معیار کی وجہ سے یہ تجربہ حکومت الٰہیہ کا تجربہ ہوگا۔ لیکن اس سے قبل اگر دنیا کے کسی ملک میں اسلام صحیح روح اور ایک مکمل ضابطہ حیات کے اعتبار سے رائج اور غالب ہوگا تو یہ بھی حکومت الٰہیہ ہی کی ایک مثال ہوگی اس لیے کہ اسلام ایک اصول ہے، کوئی شخص گمراہی یا نسلی نظام یا حقیقت نہیں۔ ممکن ہے کہ ہمارے زمانے میں قائم ہونے والی حکومت الٰہیہ کا وہ ’’معیار‘‘ نہ ہو جو ’’مطلوب‘‘ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تو ہر نظام حکومت کے ساتھ ہے۔ امریکا دو سو سال سے ’’جمہوری‘‘ ہے مگر امریکا کی جمہوریت کو ابھی تک ’’کامل جمہوریت‘‘ یا Perfect Democracy نہیں کہا جاتا بلکہ مغرب کے بعض مفکرین کہتے ہیں کہ ’’کامل جمہوریت‘‘ تو کہیں موجود نہیں۔ خدا کی پناہ خورشید ندیم تو میاں نواز شریف تک کو ’’جمہوری‘‘ کہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خادم حسین رضوی کی ’’حکومت الٰہیہ‘‘ بھی بہرحال نواز شریف کی ’’جمہوریہ‘‘ سے بہتر ہوگی۔ خورشید ندیم جمہوریت کے سلسلے میں کشادہ دل ہیں تو تھوڑا سا حکومت الٰہیہ کے لیے بھی دل کو بڑا کرلیں۔ مان لیں کہ جس طرح جمہوری تجربات کا معیار کم ہوسکتا ہے اسی طرح حکومت الٰہیہ کا معیار بھی کم ہوسکتا ہے۔
اسلام کا تصورِ جنگ دائمی طور پر ’’انقلابی‘‘ ہے۔ اس کا کسی شخصی، گروہی، حکومتی یہاں تک کہ ریاستی مفاد سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ اقبال نے کہا ہے:
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دنیا میں ساری جنگیں مال اور جغرافیے فتح کرنے کے لیے ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں مگر اسلام کا جنگی نصب العین شہادت کے سوا کبھی کچھ نہیں رہا۔ مسلمان اللہ کی کبریائی کے اعلان و نفاذ اور دین کے غلبے کے لیے جان دیتا ہے اور جان دے کر کہتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اس مسئلے کے ایک پہلو کو مولانا روم نے اپنے ایک شعر میں بے پناہ گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(جاری ہے)