ریاست مدینہ یا ریاست منا بھائی

357

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ریلیف دیا گیا تو ریاست مدینہ کا امیج متاثر ہوگا تو ضروری ہے کہ نواز شریف کو سزا دی جائے تا کہ ریاست مدینہ کا تصور اُجاگر ہو۔ حالات اور واقعات بتارہے ہیں کہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو اسی لیے سزا دی گئی ہے کہ ریاست مدینہ کا تصور واضح ہو ورنہ۔۔۔ انہوں نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا جو قابل تعزیر قرار پاتا اگر پانی و آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو یہی سزا دی جاتی تو ریاست مدینہ کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی اور انہیں اپنے خواب کی تعبیر ملنے کی توقع پیدا ہوسکتی تھی۔ صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ ان کے گلے پر کند چھری پھیر دی جاتی۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے اور ہندو اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ موصوف نے یہی کہا تھا ناں۔۔۔ کہ گائے کا پیشاب پینے والے ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تحریک انصاف کے رہنما مسٹر رمیش کمار یوں ہی جذباتی ہوگئے ورنہ۔۔۔ جو کچھ فیاض الحسن چوہان نے کہا وہ خلاف واقعہ ہرگز نہیں، یوں بھی چوہان صاحب نے بھارتی ہندوؤں کے بارے میں کہا تھا اور جہاں تک پاکستانی ہندوؤں کا تعلق ہے تو ہم انہیں اپنا ہم وطن سمجھتے ہیں اور یہی حقیقت ہے اور یہ بات پورے وثوق و یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ مسٹر رمیش کمار گائے کا پیشاب پینا پسند نہیں کرتے ہم ایسے کئی ہندوؤں کو جانتے ہیں جو گائے کا گوشت اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ہندوستان میں گائے کا پیشاب گائے کے دودھ سے دگنی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق بھارت میں گائے کا دودھ 45 روپے اور گائے کا پیشاب 90 روپے کلو فروخت ہوتا ہے۔ فیصل واوڈا نے وزیراعظم عمران خان کی
خوشنودی کے حصول کے لیے جو بیان دیا ہے وہ حزب اختلاف کی نظروں میں توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے اور اس بیان کے تناظر میں انہیں دائرہ اسلام سے خارج کردیا گیا ہے اور یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ انہیں معطل کرکے دوبارہ کلمہ پڑھایا جائے۔ اپوزیشن جتنا جی چاہے شور کرے فیصل واوڈا سے استعفا نہیں لیا جائے گا کیوں کہ وہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہیں، وہ پارٹی فنڈ کے نام پر پارٹی کو سونے میں تولنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے وہ پارٹی کے لیے سر کی بازی تو لگا سکتے ہیں سرمایہ نہیں دے سکتے، اس لیے ان سے استعفا طلب کرلیا گیا۔ فیصل واوڈا نے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے خوشامد کی ساری حدیں عبور کرلیں۔ موصوف نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد عمران خان سب سے عظیم شخص ہیں۔ حیرت ہے جو بات ایک اَن پڑھ شخص بھی جانتا ہے اپوزیشن نہیں جانتی اور وہ بات یہ ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھیرانا شرک ہے اور شرک کفر سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو شخص کہنا اور پھر اس کے مقابل کسی آدمی کو لانا گناہ کبیرہ ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو کسی بھی صورت میں قابل معافی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات عمران خان کے بارے میں کہی گئی ہے سو، معتبر ٹھیری۔ وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو بہت عظیم سمجھتے ہیں اور اپنا مقابلہ کسی جاندار سے کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان خود کو انسان اور دوسروں کو صرف جاندار سمجھتے ہیں اور ان کا سیاسی فلسفہ یہ ہے کہ مخالفین پر الزامات کی بارش کردو، ان پر ایسے ایسے بہتان لگاؤ کہ وہ قابل نفرت سمجھے جائیں۔ عمران خان وزارت عظمیٰ کی مسند پر تو بیٹھ ہی چکے ہیں اور اب نوبیل انعام اپنے نام کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ کیوں کہ قیمت ان کو نہیں قوم کو ادا کرنی ہے۔ شاید مسٹر رمش نے یہ باور کرادیا ہے کہ اگر چوہان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو اس کا نوبیل انعام کا ملنا یقینی ہے اور عمران خان نے ان کی بات پر یقین کرکے فیاض الحسن چوہان کو کالی مائی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔