ایم ڈی اے کی ’’اپنا گھر اسکیم‘‘ خدشات اور خواہشات 

445

14 سال بعد حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے تیسر ٹاون میں ’’سندھ کے شہریوں‘‘ کے لیے کم قیمت پلاٹوں کی رہائشی اسکیم کا اعلان کیا گیا تو ایسا تاثر پیدا کردیا گیا جیسے یہ صرف لوگوں کو دھوکا دے کر بھاری رقوم بٹورنے کا ’’دھندہ‘‘ ہے۔
یہ تاثر اسی میڈیا نے پیدا کیا جس نے شہریوں کے کھربوں روپے لوٹ کر غیرقانونی اراضی کے سب سے بڑے اسکینڈل ’’بحریہ ٹاؤن‘‘ کے بارے میں قوم کو آخری وقت تک اندھیرے رکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہی الیکٹرونک میڈیا سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی ’’اپنا گھر‘‘ اسکیم کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ صوبے، شہر اور اپنے ادارے سے مخلص سرکاری افسران بالخصوص ڈائریکٹر جنرل عمران عطا سومرو اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد سہیل خان نے فوراً صورتحال کو جانچ کر ایم ڈی اے کے افسران کو ایف آئی اے سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جس پر ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی توجہ اسکیم کو بدنام کرنے والوں کے خلاف دلاتے ہوئے کارروائی کی درخواست دی گئی۔ اس فوری ایکشن کے باوجود بعض ٹی وی چینل مذکورہ اسکیم کے حوالے سے شہریوں کی رہنمائی کے بجائے انہیں اسکیم سے فائدہ اٹھانے سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جس کا مقصد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت تیسر ٹاؤن کے پلاٹوں پر قبضہ کرانا تھا۔ بہرحال کراچی سمیت صوبے بھر کے شہریوں کی جانب سے اسکیم کی زبردست پزیرائی کے باعث سازشی عناصر کی کوششیں مٹی میں مل گئیں۔ تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گمراہ کن خبریں اپنی جگہ لیکن ان اطلاعات سے لوگوں کے خدشات میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ ماضی میں نیو ملیر ہاؤسنگ اسکیم، شاہ لطیف ٹاؤن اسکیم اور سرجانی ٹاؤن اسکیموں میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل میں غیر معمولی تاخیر ہوئی بلکہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کی ہاکس بے اسکیم 42 کے ساتھ بعض دیگر اسکیمیں تو اب تک اپنے ترقیاتی کاموں کی منتظر بھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے افراد کو اپنے پلاٹوں کا قبضہ بھی دیا جاچکا ہے۔ ہاکس بے ہاؤسنگ اسکیم کے سیکٹر 3 اور 3 اے میں کراچی پریس کلب کے ارکان صحافیوں کو مختص کرکے انہیں الاٹ کیے جاچکے ہیں تاہم حکومت کی عدم دلچسپی اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے یہاں تاحال ترقیاتی کام مکمل نہیں کرائے جاسکے۔ جس کی وجہ سے یہ اسکیم ابھی تک آباد بھی نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نئی سرکاری رہائشی اسکیم پر لوگ بمشکل اعتماد کرتے ہیں انہیں اپنی رقم پھنس جانے کے خدشات رہتے ہیں۔ ان خدشات کے باوجود لوگ اس لیے سرکاری اسکیموں میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کی رقم کہیں نہیں جائے گی بلکہ یہ رقم زمین کی قیمت بڑھنے کے ساتھ انہیں غیر معمولی فائدہ دے گی۔
خیال رہے کہ تیسر ٹاؤن اسکیم کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا اس قدر شدت سے کیا جارہا تھا کہ صوبائی ہاؤسنگ و لوکل گورنمنٹ سعید غنی کو بھی اس کے بارے میں وضاحت کرنی پڑی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے شروع کی گئی تیسر ٹاؤن اسکیم غریب عوام کے لیے ہے اور اس کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ماضی میں جو اسکیمیں تعطل کا شکار ہوئی ہم ان کو بھی مکمل کروائیں گے اور مذکورہ اسکیم کو بھی مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے گا۔ اتنے آسان اور سستے قیمت پلاٹس کراچی میں ملنا نہ ممکن ہے اس لیے میری عوام کو رائے ہے کہ وہ اس میں بھرپور حصہ لین اور اپنی زمین پر اپنا گھر بنانے کی خواہش کی تکمیل کریں‘‘۔
اسکیم کے حوالے سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد سہیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے 18 سال بعد رہائشی و تجارتی پلاٹوں کی اسکیم متعارف کرواکر اپنی ذمے داریاں پوری کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی اے کی نیو ملیر ہاؤسنگ اسکیم میں ترقیاتی کام جاری ہے جبکہ یہاں قرعہ اندازی کے ذریعے جو پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے ان کا قبضہ دینے کا سلسلہ دو سال پہلے سے جاری ہے اس علاقے میں خوش قسمت الاٹیز اپنے مکانات کی تعمیر بھی شروع کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ حکومت کو درپیش مالی مسائل کی وجہ سے تیسر ٹاؤن کی پرانی اسکیم میں ترقیاتی کام اس طرح نہیں کیے جاسکے جیسے کرنا تھے لیکن اب پورے تیسر ٹاون کی دونوں اسکیموں کی تیزی سے آبادکاری کے لیے تمام ترقیاتی کام جنگی بنیادوں پر مکمل کرائے جائیں گے۔ جسارت سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسکیم کے فارم جمع کرانے کی تاریخ ضرورت کے تحت 30 مارچ تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ تاہم شہریوں کو اس بات پر اطمینان ہونا چاہیے کہ فارم جمع کرنے کی تاریخ ختم ہونے کے 45 دن بعد اسکیم کے تمام پلاٹوں کی کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کسی بڑی تقریب میں شہریوں کے ساتھ معززین کی موجودگی میں کرائی جائے گی۔ اس لیے یہ تاثر غلط ہے کہ پلاٹوں کی بکنگ منی کے ذریعے ادارہ سود کی رقم کھاتا رہے گا۔ خیال رہے کہ 18 سال قبل سٹی ناظم نعمت اللہ خاں نے تیسر ٹاؤن میں سستے پلاٹوں کی پہلی اسکیم متعارف کرائی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈھائی کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے سب سے شہر کراچی میں سستی رہائشی اسکیمیں ایک خواب بنتی جارہی تھی۔ لوگوں کے لیے سستے پلاٹ حاصل کرنا ناممکن ہوتا جارہا تھا۔ ایسے میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے سرکاری شعبے میں تیسر ٹاون ’’اپنا گھر‘‘ اسکیم شروع کرکے شہر کی ترقی اور وسعت کے لیے اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ اسکیم اس لیے بھی مستقبل کے لیے اہم ہوگی کہ اس کے اس پاس تمام اہم بازار بھی ہوں گے جبکہ یہ سپر ہائی وے کو ملانے والے نادرن بائی پاس کے قریب پبلک سیکٹر کی بڑی اسکیم ہوگی جس میں 30 ہزار رہائشی پلاٹس ہوں گے۔ ایم ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ اسکیم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں کم آمدنی والے افراد کے لیے 80 فی صد پلاٹ مختص کیے گئے ہیں جو 80 اور 120 مربع گز کے ہوں گے جبکہ 240 اور 400 گز کے پلاٹوں کی تعداد صرف 20 فی صد ہوگی تاکہ کم آمدنی والوں کو اسکیم سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکے۔ دعوے وعدے اپنی جگہ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کراچی کس حد تک پھیلتا ہے اور اس سے کس حد تک شہریوں کی رہائشی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔