نیوزی لینڈ کی جنونیت نے مغرب کو ایک بار پھر فکر وفلسفے کے اعتبار سے تاریخ کے دوراہے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ ظلم کی اس کہانی میں مغرب کا مخمصہ یہ ہے کہ جنونیت کا چلتا پھر تا اشتہار ٹیرنٹ ہیرو ہے یا اسے روکنے کی کوشش میں کئی جانیں بچا کر نقد جاں ہارنے والا پاکستان کا بہادر بیٹا نعیم رشید؟ اس واردات میں مغرب کا مخمصہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹر اٹکھیلیوں سے عیاں تھا۔ جو پہلے نہ تو اس قتل عام پر کھلے بندوں اظہار نفرت کر سکے اور نہ قاتل کی مذمت میں دوبول کہہ سکے۔ اسی لیے اپنی مخمصوں بھری ٹویٹ انہیں بعد میں ڈیلیٹ کرنا پڑی۔ یہ تنہا ٹرمپ کا مخمصہ نہیں تھا مغرب کی ایک وسیع وعریض دنیا آج بھی اسی مخمصے کی دلدل میں پھنس کر رہ گئی ہے جو مسلمانوں کے عروج تو درکنار معمولی سے استحکام میں اپنا زوال اور ذلت تلاش کرتی ہے۔ یہ صلیبی دنیا کے عروج کی یادوں میں گم اور اس عروج کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہے۔ ٹرمپ کے برعکس نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسینڈا آرڈرن، برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسامے سمیت بہت سے مغربی حکمران ایک واضح لائن لیے نظر آئے۔ یہ مغرب میں دو سوچوں کی موجودگی کا پتا دیتا ہے۔ یہ سوچ ابھی مضبوط ہے کہ مسلمان مغرب کے اچھے اور کارمد شہری ہیں انہیں اس معاشرے میں آنے اور ضم ہونے کے مواقع ملتے رہنا چاہیے۔ دوسری سوچ صلیبی جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ جس کے خیال میں مسلمانوں کا وجود اس کر�ۂ ارض سے مٹا ڈالنا چاہیے۔ بوسنیا اور کوسوو کے بحرانوں میں انہی دو سوچوں کے درمیان لڑائی چلتی رہی مگر دیر ہی سے سہی صلح جویانہ سوچ غالب آگئی۔
ٹرمپ دل پر جبر کرکے واقعے کی مذمت تو کر چکے مگر ان کا ٹویٹر فرمان تھا کہ ’’نیوزی لینڈ واقعے کے باوجود وہ نہیں سمجھتے کہ سفید قوم پرستی اُبھرتا ہوا عالمی خطرہ ہے یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے جسے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے‘‘۔ اس جملے کے تحت الشعور میں یہ بات موجود ہے کہ سفید فام قوم پرستی ایک عالمی لہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکا کے کسی صدر نے کبھی بھولے سے فلسطینیوں کے مسائل میں خوردبین ہی سے سنجیدگی تلاش کی ہوتی اور پھر اس کا اعتراف کیا ہوتا؟۔ مسائل مشرق سے مغرب تک کہاں موجود نہیں مگر امریکی صدر کی ہمدردی سفید فام نسل پرستوں سے یوں چھلک پڑی ہے کہ ایک زمانہ حیران ہے۔ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فائرنگ میں نماز جمعہ کے ادائیگی کرتے ہوئے پچاس مسلمان شہید ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اسے دہشت گردی کا واقعہ قراردیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعے پرتبصرہ کرتے ہوئے واقعے کو اسلامو فوبیا کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا میں اسلامو فوبیا کا بیج بویا گیا نیوزی لینڈ کا واقعہ اسی کا برگ وبار ہے۔
اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ اس سے پہلے بھی بہت سوں کو کھٹک رہا تھا مگر نائن الیون کے واقعات کے بعد تو وہ مائنڈ سیٹ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں نکل آیا۔ امریکی صدر جارج بش نے نائن الیون کے واقعے پر اپنے بے ساختہ تبصرے میں کہا تھا کہ دشمن نے ہم پر کروسیڈز مسلط کر دی ہیں گویا کہ ایک اور صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے۔ صلیبی جنگ مسلمانوں اور عیسائی حکمرانوں کے درمیان طویل اور تاریخی رزم آرائیوں کا نام ہے جس میں کبھی مسلمان فاتح رہے تو کبھی عیسائی ظفریاب ہوئے۔ جارج بش کے اس ایک جملے پر مبنی تشبیہ نے ساری حقیقت عیاں کر کے رکھ دی تھی۔ نائن الیون کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے زہر آلود ٹاک شوز سجائے، مضامین اور کالم شائع کیے اور کارٹون بنائے، کتابیں شائع ہوئیں اور ان سب میں مسلمانوں کو فساد فی الارض کا باعث طبقہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اسلام اور مسلمانوں کو ہر زاویے سے دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کیا گیا۔ جب بھی مغرب میں کوئی واردات ہوئی تو میڈیا نے اسلامک ٹیررسٹ کا ڈھول جم کر پیٹا۔ جب بھی کسی سفید فام یا غیر مسلم نے کوئی واردات کی تو اس کے لیے مجرم اور قاتل کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ ایسا کرتے ہوئے مجرم کے مذہب کا ذکر صفائی سے گول کیا جاتا رہا۔ مسلمان کی دہشت گردی میں مذہب کے عنصر کو اُبھارا جاتا تو عیسائی یا یہودی کی دہشت گردی کی صورت میں مذہب کا ذکر غائب ہوجاتا۔ یہ ایک دلخراش تضاد اور سوچی سمجھی پالیسی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو مجموعی طور پر اور ان کی تہذیب کو کلیتاً دفاعی پوزیشن اور ایک کٹہرے میں کھڑا کیے رکھنا تھا۔ مسلمانوں کو خوف، نفرت اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کر نا تھا۔ کسی مسلمان کے انفرادی فعل کا اس کے مذہب کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا تھا۔ کہیں سماجی حالات کا دخل ہوتا ہے تو کہیں ردعمل کی کوئی اور وجہ تہہ میں موجود ہوتی مگر ایسے ہر واقعے کے مرتکب شخص کی مذہبی شناخت کو سب سے اوپر رکھا جاتا جیسے کہ یہ کسی فرد کے بجائے پوری تہذیب اور مذہب کا فعل ہو۔
مغرب کی سوچی سمجھی اسکیم کے باوجود مغربی معاشروں میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ اسلام کے فروغ اور اشاعت کو روکنا تو ممکن نہ ہوا مگر اس سے اسلام دشمن مائنڈ سیٹ جسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے کو تقویت ملتی چلی گئی۔ اب نیوزی لینڈ میں معصوم نمازیوں پر موت برپا کر کے اس ذہنیت نے اپنا وجود دکھلا دیا ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ برسوں سے اسلامک ٹیررسٹ کی جگالی کرنے والے مغربی میڈیا نے اس واقعے میں ’’کرسچین ٹیررسٹ‘‘ کی اصطلاح ایک بار بھی استعمال نہیں کی۔ یہی تضادات اور دہرے میعارات دنیا میں خرابی کی جڑ ہیں۔ نیوزی لینڈ کا قاتل کوئی پاگل شخص نہیں تھا وہ فکری اعتبار سے ایک مکمل نظریاتی انسان تھا۔ ایک سفید فام عیسائی کے طور پر اس کا نظریاتی شعور بھی بہت اعلیٰ اور مضبوط تھا۔ اس نے اپنا پورا دماغ اور فکر بندوق پر کھول کر رکھ دیے تھے۔ وہ اپنے ہدف میں یکسو ہے اور اپنی سوچ وفکر سے قریب تر لوگوں کے لیے بہادری اور چاہا جانے والا کردار بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مغرب نے تھوڑی سے غفلت برتی تو ٹیرنٹ سفید فام دنیا کا ہیرو بن کر اُبھر سکتا ہے اور جو خطرہ ٹرمپ کو ابھی دکھائی نہیں دے رہا حقیقت بن کر سرچڑھ کر بولتا نظر آئے گا۔ کچے ذہنوں کے لیے ایسے کرداروں کو رومنٹسائز کرنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ یہ لہر چل پڑی تو مسلمان دنیا میں عراق، افغانستان اور شام سجانے والوں کو گھروں میں ایسے مناظر دیکھنا پڑیں گے۔ مغرب کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ جلد مخمصے کو جھٹک کر نعیم رشید کو ہیرو کے طور پر قبول کرے بصورت دیگر ٹیرنٹ خود بخود ہیرو بنتا چلا جائے گا۔ یوں علامہ اقبال کی پیش گوئی سچ ثابت ہو سکتی ہے، ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘‘۔ گویا کہ جس تہذیب کو اُسامہ بن لادن برباد نہ کرسکا اسے اپنا ہی فرزند برینٹن ٹیرنٹ ڈبونے کا باعث بن سکتا ہے۔