بھارت کی فطرت‘ گاندھی اور نتھو رام گوڈ سے

1071

ہندوستان میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ہندوستان کے حوالے سے وہ سوالات اُٹھائے ہیں جو صدیوں میں اُٹھائے جاتے ہیں۔ کانگریس کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی بتائیں بھارت کی فطرت جنگ ہے یا امن؟ انہوں نے مودی سے یہ بھی پوچھا کہ انہیں گاندھی کا ملک چاہیے یا ان کے قاتل نتھو رام گوڈسے کا؟
بدقسمتی سے نریندر مودی کی جانب سے ان سوالات کے جواب مہیا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بلکہ مودی کیا ان سوالات کا جواب تو پورا بھارت بھی نہیں دے سکتا۔ چناں چہ بھارت کے پڑوسی کی حیثیت سے یہ جواب ہم فراہم کردیتے ہیں۔ آخر پڑوسیوں کا پڑوسیوں پر بڑا حق ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سوالات ’’علمی‘‘ ہیں تو ان کا جواب بھی ’’علمی‘‘ ہی ہونا چاہیے۔
راہول گاندھی نے بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ہندوستان کی فطرت جنگ ہے یا امن؟ اطلاعاً عرض ہے کہ ہزاروں سال سے ہندوستان کی اصل فطرت جنگ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان اصل میں دراوڑوں کا ملک تھا مگر بعض تاریخی شہادتوں کے مطابق آریہ وسطی ایشیا سے اُٹھے اور طاقت کے زور پر ہندوستان کو فتح کرلیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دراوڑوں کو اپنا مفتوح بنالیا بلکہ انہوں نے اپنا مذہب بھی ان پر تھوپ دیا۔ بعض مورخین کا اصرار ہے کہ آریوں نے دراوڑوں پر نیا مذہب نہیں مذہب کی نئی تعبیر مسلط کی۔ حقیقت جو بھی ہو آریہ ’’invaders‘‘ تھے اور انہوں نے جنگ کے ذریعے ہندوستان کو فتح کیا تھا۔ اس اعتبار سے جنگ ہندوستان کے خمیر میں ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو دُنیا کی تاریخ ہی فاتحین اور مفتوحین کی تاریخ ہے مگر آریوں نے خود ہندوازم کے دائرے میں موجود لوگوں پر ایک قسم کی جنگ مسلط کردی۔
ہندوازم کے دائرے میں ذات پات کے نظام کے چار بڑے حوالے ہیں۔ سب سے اعلیٰ ذات کے ہندو برہمن کہلاتے ہیں۔ ہندو ازم کی تعلیمات کے اعتبار سے برہمن مذہب کی تشریح و تعبیر کرنے والے یعنی دین کے محافظ ہیں۔ دوسرے نمبر پر شتریہ آتے ہیں۔ یہ ہندو ازم کی warrior class ہے۔ یہ سیاست اور ریاست چلانے والے لوگ ہیں۔ یہ ملک کے محافظ ہیں۔ تیسرے نمبر پر ویش آتے ہیں۔ یہ تاجر پیشہ اور کاروباری لوگ ہیں۔ چوتھے نمبر پر شودر ہیں۔ یہ ہندو ازم کی سب سے نچلی ذات ہے۔ شودروں کو ’’محنت کش طبقہ‘‘ سمجھنا چاہیے۔ ہندو ازم کا اصل تصور یہ ہے کہ برہمن، شتریہ، ویش اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی اقسام ہیں۔ یعنی کچھ لوگ پیدائشی طور پر زیادہ روحانیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ذہن سیاسی ہوتا ہے اور وہ ریاست و سیاست کے لیے زیادہ کفایت کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ’’عقل معاش‘‘ تیز ہوتی ہے، چناں چہ وہ تجارت کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف جسمانی محنت کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ برہمن کے گھر ہمیشہ برہمن اور شودر کے گھر ہمیشہ شودر پیدا ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ برہمن کے گھر شودر پیدا ہوجائے اور شودر کے گھر برہمن جنم لے لے۔ شتری کے گھر ویش جنم لے لے اور ویش کے گھر شتری کا ظہور ہوجائے۔ اب ہندوستان کی فطرت میں موجود جنگ پرستی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ذات پات کے نظام کو ’’نسلی سلسلہ‘‘ بنادیا۔ اس طرح انہوں نے خود ہندو ازم کے دائرے میں موجود کروڑوں شودروں پر کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ اور کبھی نہ ختم ہونے والی ذلت مسلط کردی۔ سوال یہ ہے کہ جو ملک اپنے ہی مذہب کے دائرے میں موجود لوگوں کو ’’غلام‘‘ بنالے اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلت و خواری اور احساسِ کمتری میں مبتلا کردے اس سے بڑا جنگ پرست کون ہوگا؟۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ بدھ ازم ہندو ازم ہی کے دائرے میں آنے والی مذہبی روایت ہے۔ مہاتما بدھ مکّے یا مدینے یا شام و عراق میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ ہندوستان کی ریاست بہار میں پیدا ہوئے تھے اور وہ روحانی شخصیت بننے سے قبل شہزادے تھے۔ لیکن ہندوستان نے مہاتما بدھ کو ’’دیوتا‘‘ ماننے سے انکار کیا۔ ہندوستان نے ان کا اعتراف کیا بھی تو انہیں ’’میکھ اوتار‘‘ یا ’’ناپاک اوتار‘‘ قرار دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے مہاتما بدھ کے پیروکاروں پر جنگ مسلط کردی اور بدھ ازم کو ہندوستان کے مرکز سے نکال باہر کیا۔ چناں چہ بدھ ازم بہار اور یوپی میں نہ پھیلا بلکہ اس نے موجودہ پاکستان اور افغانستان میں اپنے مراکز پید اکیے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی فطرت امن نہیں جنگ ہے۔
اقبال نے کہا ہے:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
ہندوستان کے تناظر میں اقبال کے اس شعر کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ ہندو نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے گوہر کی سیرابی
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان کی جنگ پرستی نے مسلمانوں کی تین بڑی اور اہم شخصیتوں کو ’’قوم پرستی‘‘ کی دلدل سے نکال کر انہیں ’’مسلماں‘‘ بنایا۔ ایک زمانے میں سرسید ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں قرار دیا کرتے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ہندوؤں کی جماعت کانگریس اور کانگریس کی قیادت فارسی اور اردو کی دشمن ہوئی جارہی ہے تو سرسید نے مسلمانوں سے کہا کہ کانگریس میں تمہارے لیے کچھ نہیں رکھا۔ تمہیں اپنے مفادات عزیز ہیں تو اپنی جماعت بناؤ۔ اقبال کی ابتدائی شاعری میں ہمیں اقبال ایک ’’قوم پرست شاعر‘‘نظر آتے ہیں۔ وہ ہندوؤں کی تاریخ کی اہم شخصیت رام کو ’’امام ہند‘‘ کہتے ہیں۔ وہ گوتم بدھ اور گرونانک سے اظہار محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کی خاک کا ہر ذرہ ’’دیوتا‘‘ نظر آتا تھا۔ انہیں ہمالے سے محبت تھی اور وہ اسے ہندوستان کا ’’پاسبان‘‘ قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے اقبال مسلمانوں کے جداگانہ تشخص اور ان کے لیے جداگانہ وطن کے تصور کے قائل ہوگئے۔ قائد اعظم تو ابتدا میں کانگریس کے رہنما ہی تھے اور انہیں ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کا سب سے بڑا علمبردار کہا جاتا تھا۔ مگر ہندوؤں کی جنگ پسندی نے انہیں بھی ’’دو قومی نظریے‘‘ کا عاشق بنادیا اور انہوں نے صاف کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہر چیز الگ ہے، ان کا مذہب الگ ہے، ان کی تہذیب جدا ہے، ان کی تاریخ مختلف ہے، ان کے ہیروز، ان کی زبانیں، ان کے تہوار، غرضیکہ ان کی ہر چیز دوسرے سے مختلف ہے۔ ہندوستان کی فطرت میں امن ہوتا تو سرسید، اقبال اور جناح کبھی وہ نہ بنتے جو کہ وہ بالآخر بنے۔
’’جدید ہندوستان‘‘ کا قصہ یہ ہے کہ ہندو 1920ء سے بھارت کے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے ان کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ ہندوستان اب تک پاکستان کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ چین کے ساتھ اس کی ایک جنگ ہوچکی ہے۔ نیپال ہندو ریاست ہے مگر بھارت اس کو اپنا ’’غلام‘‘ بنانے کے لیے اس کے خلاف بھی ’’جنگی اقدامات‘‘ کرتا رہتا ہے۔ وہ کبھی نیپال کا پٹرول بند کردیتا ہے، کبھی اس کو اشیائے خورونوش کی فراہمی معطل کردیتا ہے۔ ہندوستان سری لنکا میں مداخلت کرچکا ہے، مالدیپ میں ایک بار اس کی فوج اُتر چکی ہے۔ بھوٹان کو وہ اپنی ریاست سمجھتا ہے۔ بنگلادیش کو اس نے اپنی کالونی بنایا ہوا ہے۔ ان مثالوں سے ثابت ہے کہ ہندوستان کی فطرت میں امن نام کو بھی نہیں ہے۔ اس کی فطرت پر جنگ چھائی ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر اتنی طویل مدت میں ایک بھی ’’ہندوکش‘‘ فساد نہ ہوا مگر جب سے اقتدار ہندوؤں کے ہاتھ میں آیا ہے ہندوستان میں پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے ’’مسلم کش‘‘ فسادات ہوچکے ہیں۔ حالاں کہ ہندوؤں کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی صرف 71 سال ہوئے ہیں مگر ہندوستان نے صرف مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں چھیڑی ہوئی۔ انہوں نے سکھوں کے مقدس مقام ’’گولڈن ٹمپل‘‘ پر گولیاں برسائی ہیں اور اس پر بم پھینکے ہیں۔ اندرا گاندھی کو ردِعمل میں قتل کرنے والے صرف دو سکھ تھے مگر ہندوؤں نے صرف دہلی میں ایک دن میں تین ہزار سکھ قتل کر ڈالے۔ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ جنگ ہندوستان کی فطرت بھی ہے، خصلت بھی، عادت بھی ہے، محبت بھی، مصروفیت بھی ہے، فرصت بھی۔ ہندوستان جنگ سے اور جنگ ہندوستان سے ہے۔
راہول گاندھی نے مودی سے یہ بھی پوچھا ہے کہ انہیں گاندھی کا ہندوستان چاہیے یا ان کے قاتل نتھورام گوڈسے کا؟ ساری دُنیا گاندھی اور نتھورام گوڈسے کو مختلف شخصیات سمجھتی ہے مگر ہندوستان کے باطن سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ گاندھی اور نتھورام گوڈسے ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ کبھی نتھو رام ترقی کرکے گاندھی بن جاتا ہے اور کبھی ’’گاندھی جی‘‘ زوال پزیر ہوکر نتھو رام گوڈسے بن جاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ 1948ء میں ایک کمتر گاندھی نے ایک بہتر گاندھی کو قتل کر ڈالا لیکن دُنیا چوں کہ نہ ہندوستان کے مزاج کو سمجھتی ہے نہ اس کی فطرت سے آگاہ ہے اس لیے وہ سمجھتی ہے کہ 1948ء میں نتھورام نے گاندھی کو قتل کر ڈالا۔ گاندھی اور نتھو رام گوڈسے کو دیکھنے کا ایک اور اسلوب بھی ہے۔ نتھو رام گوڈسے بھارت کا باطن ہے اور گاندھی بھارت کا ظاہر۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت کے باطن نے بھارت کے ظاہر کو مار ڈالا۔ آپ ہمیں اسلامی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت دیں تو نتھورام گوڈسے بھارت کا ’’نفسِ امارہ‘‘ تھا اور گاندھی بھارت کا ’’نفس لوامہ‘‘۔ چناں چہ نتھورام گوڈسے کے ہاتھوں گاندھی کا قتل ہندوستان کے نفسِ امارہ کے ہاتھوں ہندوستان کے نفسِ لوامہ کا قتل ہے۔ بدقسمتی سے نتھو رام گوڈسے بھارت کی ’’اصل‘‘ ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ بی جے پی اقتدار میں آئی تو ممبئی میں ایک ڈراما اسٹیج ہوا۔ اس ڈرامے میں نتھورام گوڈسے کو ’’محب وطن‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہ ڈراما کئی سال اسٹیج ہوتا رہا۔ بھارت میں کہیں گاندھی زندہ ہوتے تو نتھو رام گوڈسے بھارت میں ہیرو بن کر نہیں اُبھر سکتا تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی، شیوسینا اور بجرنگ دل وغیرہ کا پھیلاؤ دراصل بھارت میں نتھو رام گوڈسے کا پھیلاؤ ہے۔ ان حقائق سے ظاہر ہے کہ مودی ہی کو نہیں بھارت کے 40 فی صد سے زیادہ ووٹرز کو گاندھی کا ملک نہیں نتھو رام گوڈسے کا ملک چاہیے۔ اس لیے کہ اس وقت بھی بھارت کے 40 فی صد سے زیادہ ووٹرز مودی کی حمایت کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو 40 فی صد ہندوستان نعرہ لگارہا ہے گاندھی مردہ باد نتھورام گاڈسے زندہ باد۔