امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہی لگتا ہے کہ حکومت نے بھارتی پائلٹ کی رہائی میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت ہمیں لاشیں بھیج رہا ہے ہمارے معصوم شہریوں پر گولہ باری کرکے قتل عام کررہا ہے اور ہم اس سے امن کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 6 ماہ کی حکمرانی کے دوران ثابت کردیا ہے کہ اس کا کوئی وژن نہیں۔ اگر دیانت داری سے سراج الحق صاحب کے بیان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ حکومت کا کوئی سیاسی وژن نہیں ہے اگر وہ بھارتی پائلٹ کی کچھ دن اور میزبانی کرتی تو بھارت کو ’’ڈومور‘‘ کا پاپ جپنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔
بھارت نے اپنا پائلٹ وصول کرتے ہی 20 افراد کا مطالبہ داغ دیا اور ایسے افراد طلب کیے جو پاکستان میں موجود ہی نہیں۔ مودی کچھ وکھری ٹائپ کا بندہ ہے اس سے ایسے ہی مطالبے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بھارت نے کبھی اقوام عالم کی پروا نہیں کی وہ ہمیشہ من مانی کرتا ہے، دوسروں کو ایذا پہنچا کر سکون محسوس کرتا ہے، اپنے پائلٹ کی رہائی پر شکریہ ادا کرنے کے بجائے جان بچانے والی ادویات کا خام مال دینے سے انکار کرکے کالی کے پجاری نے کالی ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بہترین اسٹروک کھیلا ہے، ساری دنیا ہماری امن پسند کی قائل ہوگئی ہے۔ شیخ صاحب بھول رہے ہیں کہ یہ بہترین اسٹروک سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پہلے ہی کھیل چکے ہیں، انہوں نے اسکردو میں گرفتار بھارتی پائلٹ کو غیر مشروط طور پر رہا کردیا تھا مگر کسی نے نوبیل انعام کے لیے اسمبلی میں قرار داد پیش نہیں کی تھی، اب رہا یہ سوال کہ کئی سیاست دان بھارتی پائلٹ کی رہائی پر تنقید کررہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان پہلے بھی کئی بار ایسی نوازشات کرچکا ہے مگر بھارت ہماری نوازش کو اپنا خراج سمجھ کر وصول کرتا ہے۔ اسی لیے خورشید شاہ اور دیگر سیاسی رہنما بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کی عجلت کو شکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
ملک حالت جنگ میں ہے اور حکومت امن پسندی کے حوالے سے نوبیل انعام طلب کررہی ہے، اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اس معاملے میں خاصے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں مگر دنیا تحریک انصاف کی طرح نہیں سوچتی، وہ وزیراعظم عمران خان کی امن پسندی پر غور کرے گی، ان کے انداز حکمرانی کا تجزیہ کرے گی پھر کوئی رائے قائم کرے گی وہ یہ بھی سوچے گی کہ عمران خان اپوزیشن کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ حیرت ہے چودھری فواد کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ جو حکومت حزب اختلاف سے ہاتھ تک ملانے کی روادار نہیں وہ حقیقی دشمن کو گلے کیوں لگارہی ہے؟۔ تحریک انصاف نے عمران خان کے لیے نوبیل انعام کی ڈیمانڈ کرکے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر ان کو یہ باور کرادیا جائے کہ کلبھوشن کی رہائی عمران خان کے لیے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کی راہ ہموار کرسکتی ہے تو تحریک انصاف کی حکومت کلبھوشن کو بخوشی رہا کردے گی اور ساتھ ہی ساتھ امن پسندی کا ڈھول پیٹے گی۔ امن پسند ہونے کا مطلب دشمن کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا بعض لوگ اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی امن پسندی کہیں دشمن کے لیے تر نوالہ نہ بن جائے۔ تحریک انصاف اور اس کے ہم نوا یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ ساری دنیا ہماری امن پسندی کی قائل ہوچکی ہے اور اقوام عالم ہماری امن پسند پالیسی کو خوش نظری سے دیکھ رہی ہے مگر اس حقیقت پر کوئی غور کرنے پر آمادہ نہیں کہ ہماری امن پسندی کی تعریف کرنے والے بھارت کی جارحیت پسندی اور جارحانہ سوچ کی مذمت کیوں نہیں کررہے ہیں؟۔ اگر پاکستان بھارت پر حملہ آور ہوتا اور اس کی سول آبادی پر گولہ باری کررہا ہوتا تو ساری دنیا ہمارے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی۔ گستاخی معاف! ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی میں کہیں نہ کہیں کوئی نقص ہے، کوئی خرابی ہے، کوئی جھول ہے جسے نظر انداز کیا جارہا ہے یا ہم محسوس کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہیں۔