جیسنڈا آرڈرن تہذیبوں کا حسین بندھن؟ 

652

نیوزی لینڈ کی اڑتیس سالہ دھان پان سی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن دنیا بھر میں پھیلنے والی اسلامو فوبیا کی خونیں لہروں کے درمیان امید، اتحاد، تشکر ومہربانی اور بہتری کا ایک استعارہ بن کر اُبھری ہیں۔ خاتون یہ جانتی ہیں کہ مسلمان ایک زخم خوردہ کمیونٹی ہے اور وہ اس کمیونٹی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اپنی سی ہر تدابیر کر گزرتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی علامتوں اور استعاروں کا سہارا لے کر وہ مسلمانوں کا احساس تنہائی ختم کرنے اور انہیں اعتماد بخشنے کی کوشش کررہی ہیں۔ جس شخصیت نے نیوزی لینڈ کی واردات کو درست تناظر میں سمجھا وہ یہی خاتون تھیں۔ ہم مغرب کی کج ادائی پر تنقید کرنے میں دیر نہیں کرتے مگر اچھائی کو سراہنے اور اعتراف کرنے میں تاخیر بھی دیانت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پچاس مسلمانوں کا قاتل برینٹن ٹارنٹ فکری اعتبار سے ایک مضبوط اور ٹھوس سفید فام قوم پرست تھا۔ وہ نظریاتی شعور کے لحاظ سے ایک پختہ عیسائی تھا اور اس کا نظریاتی ذہن اور سراپا پوری طرح بندوق پر لکھی تحریروں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس نے تاریخ سے چن چن کر ایسے کردار ڈھونڈ نکالے تھے اور پھر انہیں اپنا ہیرو قرار دیا تھا جو مسلمانوں کے ساتھ معرکہ آرائیوں کا حصہ رہ چکے تھے۔ صلیبی جنگوں سے کوسوو تک اس میں زماں ومکاں کی قید نہیں تھی۔
نائن الیون کے چند ہی دن بعد امریکا کے ایک معتبر اخبار نیویارک ٹائمز نے مصری نژاد یورپی خاتون کا ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون میں یہودی خاتون دانشور نے اہل مغرب کو مسلمانوں کی آبادی میں غیر معمولی اضافے اور ان کے یورپ اور مغربی ملکوں کی طرف تیزی سے نقل مکانی کے رجحان کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ جلد ہی یورپ میں آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا۔ اس کی ابتدا فرانس سے ہوگی جہاں الجزائر اور دوسرے ملکوں سے مسلمان بڑی تعداد میں منتقل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح پورے یورپ کو بتایا گیا تھا کہ مسلمان اگر اپنی عددی قوت کے بل پر یورپ میں غالب آگئے تو یورپی باشندوں کو غلامی اور اپنے کلچر اور روایات سے دست برداری کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ نائن الیون کے بعد یہودی دانشوروں نے منظم منصوبہ بندی سے عیسائی اور مسلمان دنیا کے درمیان خلیج کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عیسائی دنیا کو مسلمانوں سے خوف دلا کر اپنے طویل المیعاد مقاصد کی آبیاری کے لیے استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات تازہ ہونے لگے۔ نفرت کی چنگاریاں تاریخ کی راکھ میں تو موجود تھی ہی بس انہیں برینٹن ٹارنٹ جیسی ہواؤں کی ضرورت تھی۔ برینٹن ٹارنٹ اپنی شخصیت اور فکری سوچ وساخت اور نفرتوں بھری فضاء میں مغربی نوجوانوں کا رول ماڈل بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور ٹرمپ جیسی ہمدرد شخصیات کے مخمصوں بھرے ٹویٹس ایسے کرداروں کو معاشروں اور تہذیبوں کا رول ماڈل بناتے ہیں۔ ایسے کرداروں کو بالادست طبقات اور حکمرانوں کی معمولی سی ہمدردی کی چھتر ی مل جائے تو وہ اتھل پتھل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا ہوجائے تو مغرب کی جنت صرف باہر سے جانے والوں کے لیے ہی نہیں خود اپنے باشندوں کے جہنم بن سکتی ہیں۔ مغرب کی فلاحی ریاستیں دوبارہ اپنی سلامتی کے تحفظ کی فکر میں غلطاں ہو کر سیکورٹی اسٹیٹس بننے کی طرف لوٹ سکتی ہیں۔ جس خانہ جنگی اور بدامنی کے نظارے اہل مغرب دور بیٹھ کر کیا کرتے تھے وہ شعلے ان کے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ مسلمان آبادیاں کمزور سہی مگر ان پر تشدد اور ان کے خلاف نفرت کے اثرات مجموعی طور پر پوری آبادی کو نفسیاتی اور عملی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی دھان پان وزیر اعظم نے اس خطرے کی بُو سونگھ کر ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کی پیشکش میں ’’ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا‘‘ کے انداز میں جواب دیا کہ آپ کچھ اور نہ کریں سوائے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔
جیسنڈا نے مسلمانوں کا پہلا کام یہ کیا وہ مسلمانوں کے لباس میں سامنے آئیں۔ جس لباس کا آسٹریلوی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن پارلیمان نے مذاق اُڑایا تھا جیسنڈا وہی لباس پہن کر سامنے آئیں۔ وہ مسلمان خواتین سے لپٹ کر روتی رہیں اور ان کی حفاظت نہ کر سکنے پر بار بار ندامت اور معذرت کا اظہا ر کرتی رہیں۔ یہ آنکھوں کے نہیں دل کے آنسو معلوم ہوتے دکھائی دے رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ ایک ماں کو اپنے بچوں کے چھن جانے اور ان کی حفاظت کی ذمے داری پر پورا نہ اُترنے کا دکھ ہے۔ یہ وہ ریاست ہوتی ہے جسے ماں جیسا کہلانے کا حق ہوتا ہے۔ جیسنڈا صرف مغرب کے لیے ہی نہیں مسلمان حکمرانوں کے لیے بھی ایک رول ماڈل کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ وہ ان اقدار کی علامت بن کر اُبھری ہیں جن پر کاربند رہنے نے مغرب کو عروج عطا کیا تھا۔
ترک صدر رجیب طیب اردوان نے اس خلوص بھری کوشش کو دیکھ کر کہا کہ ’’مغربی راہنماؤں کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی جرات، قیادت اور خلوص سے سیکھنے اور اپنے ممالک میں مسلمانوں سے بغلگیر ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس خاتون کی کوششوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ٹیلی فون کرکے ان سے اظہا تعزیت بھی کیا اور ان کے رویے کی تعریف بھی کی۔ عمران خان نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں کارروائی کا آغاز تاریخ میں پہلی بار تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا اور وزیر اعظم نے اپنے خطاب کا آغاز ’’اسلام وعلیکم‘‘ سے کیا۔ جیسنڈا نے ٹارنٹ کو قتل عام سے روکنے کی کوشش کرنے والے بہادر پاکستانی کا ذکر نہ صرف عقیدت بھرے الفاظ میں کیا بلکہ اس کی ملکی شناخت کو بھی یہ کہہ کر تسلیم کیا کہ نعیم رشید کا تعلق پاکستان سے تھا۔ جیسنڈا نے اپنے قول وفعل سے ٹارنٹ کو مغربی اور عیسائی دنیا کا ’’ولن‘‘ اور نعیم رشید کو ’’ہیرو‘‘ بنانے کی کوشش کر کے آنے والے زمانوں میں فساد کے طوفان کے آگے بندھ باندھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ ان کی اس مسلمان دوستی مہم میں جمعہ کو سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے اذان نشر کی گئی۔ یوں جیسنڈا آرڈرن مغربی دنیا اور تہذیب کے ایک حقیقی اور مہربان کردار اور روپ میں سامنے آئی ہے۔ دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور عدم رواداری کے ماحول میں جیسنڈا امید کی کرن ہیں۔ ایسے کردار رول ماڈل بن جائیں تو مغرب اور اسلام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری میں غیر معمولی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ جزیروں پر مشتمل چھوٹے سے ملک کی بظاہر ایک کمزور دکھائی دینے والی خاتون اپنے قول وفعل سے تہذیبوں کے درمیان ایک مضبوط پُل اور حسین بندھن کی علامت بن کر سامنے آئی ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی نفرتوں بھری دنیا کو ایسے ہی مسیحا نفس کرداروں کی ضرورت ہے۔