سوال یہ پیدا ہوتا ہے عمران خان کی کون سی کمزوری اپوزیشن کے ہاتھ آگئی ہے کہ وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ مجھے این آر او کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ بلیک میل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی کمزوری ہاتھ میں آجائے۔ اس سے قبل بھی وزیراعظم نے یہی کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے مجھے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ میں شہباز شریف کو کبھی پی اے سی کا چیئرمین نہیں بناؤں گا یہ دودھ کی رکھوالی بلے کے حوالے کرنے کے مترادف ہوگا۔ لیکن بات یہ ہوئی کہ دنیا نے دیکھ لیا شہباز شریف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سب کچھ بن گئے یعنی وزیراعظم بلیک میل ہوگئے یا دودھ کی رکھوالی بلے کو دے دی۔ اب نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے مسئلے پر بلیک میل کیا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ این آر او کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ پہلے بھی انہوں نے نہیں بتایا کہ ان کی کون سے کمزوری ہے جس کے سبب انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ جس کے ہاتھ صاف ہوں اسے کوئی بلیک میل نہیں کرسکتا۔ حکومت یا وزیراعظم کو بلیک میل کیے جانے کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ایک انفرادی ہے جس میں وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے اہم وزیروں کے بارے میں رپورٹس کی موجودگی یا ان کے کوئی غلط کام اپوزیشن یا کسی خفیہ ادارے کے علم میں ہوں جن کی بنیاد پر بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔ سو اس حوالے سے ایک بات تو یہ ہے کہ موجودہ کابینہ کے وزراء میں سے نصف بلکہ اس سے زیادہ ہی جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کے لوگ ہیں، ممکن ہے بلیک میلنگ کا سبب یہ لوگ بن رہے ہوں کیونکہ جنرل پرویز، پی پی اور مسلم لیگ کو عمران خان چوروں کا ٹولہ کہتے رہے ہیں اور اب ان کی کابینہ میں اس چوروں کے ٹولے کے بہت سارے لوگ شامل ہیں ممکن ہے ان کی کوئی چوری رہی ہو جس کی زد وزیراعظم پر بھی پڑی ہو۔ اگر وہ اپنے دعوے کے مطابق چوروں کے ٹولے سے اپنی کابینہ مکمل کریں گے تو انہیں بلیک میل کیاجاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ مانگے تانگے کی حکومت بنائیں گے تو بھی چند ووٹوں کی حکومت کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نزدیک اقتدار اہم ہے یا اصول۔ اگر اصول اہم ہیں تو بلیک میل ہونے کے بجائے ان اسباب کو دور کریں جن کی وجہ سے انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور عمران خان کے یوٹرن فلسفے کی روشنی میں آنے والے چند روز اہم ہیں۔ میاں نواز شریف کی ضمانت ہوگئی اب کسی بھی دن یہ خبر سننے کو ملے گی کہ نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل سے خارج ہوگیا ہے یعنی این آر او تو ہوگیا۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوگا کہ وزیراعظم کی طرف بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔ این آر او کا مطالبہ اور دباؤ وہیں ہوتا ہے جہاں کمزوری ہو۔ وزیراعظم نے پیر کے روز اخبارات کے مخصوص رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے این آر او کے لیے بلیک میل کرنے کی بات کی اور اپوزیشن کے ملین مارچ کو مسترد کرنے کی بات کی اس سے میاں نواز شریف کے وہ تاریخی جملے یاد آگئے جب انہوں نے کہا کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا اسمبلی نہیں توڑوں گا اور اگلے روز دونوں کام کر ڈالے اس مرتبہ بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک جانب مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے ٹرین روکی اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کا ٹرین مارچ چل پڑا ہے، دباؤ تو پڑے گا اور آثار نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ مریم نواز اور بلاول ابو بچاؤ مہم پر ہیں۔ یہ کہنے والے وہ لوگ ہیں جو پی پی یا ن لیگ سے پی ٹی آئی میں آئے ہیں یا ان کی پارٹی پی ٹی آئی کی حلیف بنی ہے، لیکن اسے اتفاق کہا جائے یا حقیقت کہ مریم نواز اور بلاول ابو بچاؤ مہم چلا رہے ہیں ان کے ابو ان کے حقیقی ابو بھی ہیں اور سیاسی ابو بھی۔ لیکن حکومت میں شامل مختلف گروپوں سے آنے والے لوگوں کے کوئی سیاسی ابو بھی نہیں وہ کس کے لیے گرمجوشی دکھائیں گے۔ پاکستان کی سیاست میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھٹو کے جیالوں ہی نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹیں۔ اور پھر دنیا بھر سے گھوم پھر کر بھٹو ہی کی پارٹی میں واپس آگئے۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو صاحب نے جن صاحب کو سیاسی ابو بنایا تھا وہ ان کو بچانے نہیں ان کو ہٹانے میں پیش پیش رہے یعنی ایوب خان، بعدمیں بھٹو خود اپنی پارٹی کے ابو بن گئے۔ پیپلز پارٹی کو تو بھٹو کا نعرہ ملا ہوا ہے۔ ان کے اپنے شہید بھی ہیں۔ مسلم لیگ کو نواز شریف ملے ہوئے ہیں ابھی تک تو وہ صرف ابو ہیں لیکن اگر قید اور مقدمے بازی کے دوران کچھ ہوگیا تو مسلم لیگ ن کو بھی سیاسی شہید مل جائے گا۔ سوال تو ان لوگوں سے ہے جو آج کل کسی سیاسی ابو کے بغیر توکوچۂ سیاست میں دوڑ بھاگ کر رہے ہیں(جسے آنیاں جانیاں کہا جاتا ہے) وفاقی وزیر اطلاعات نے اس ٹرین مارچ کے بارے میں کہا کہ دنیا کا پہلا ابو بچاؤ ٹرین مارچ شروع ہوگیا۔ واقعی یہ پہلا مارچ ہے جس کی تشہیر حکومت خود کر رہی ہے جو اسی کے خلاف ہے۔ این آر او کی اس سے بڑی تصدیق اور کیا ہوگی کہ حکومت خود اپنے خلاف این آر او کی تصدیق کررہی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ اپوزیشن احتجاج کرے ہم کنٹینر دیں گے۔ یہ کرپشن بچانے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ اس کی وضاحت تو وزیراعظم ہی کریں گے کہ کنٹینر پر جمع ہونے کا کیا مقصد ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی وضاحت بھی کردی ہے کہ ہم تو مسائل کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ بہرحال یہ وضاحت بھی انہیں کرنی چاہیے کہ کون بلیک میل کر رہا ہے اور کیا مطالبہ کررہا ہے۔ جہاں تک نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لیے قانون دریافت کرنے کا معصومانہ سوال سے تو اس کے لیے بتایا جاسکتا ہے کہ جس قانون کے تحت زلفی بخاری کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی اس قانون کے تحت نواز شریف کو بھی جانے دیا جائے۔ بہرحال یہ بات درست ہے کہ اگر نواز شریف ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنا سکتے تھے تو ایک ایسا اسپتال بھی بنوا لیتے جہاں ان کا علاج ہو جاتا۔ ویسے ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنانا کوئی جرم نہیں بلکہ قومی خدمت ہے۔ بس اس میں بدعنوانی کی رقم شامل نہیں ہونی چاہیے۔ اور نہ ہی بیرون ملک کے فنڈز یا سٹے کی رقم۔