سیاست کے سمندر میں ارتعاش

249

اسلام آباد کے نیب آفس میں زرداری اور ان کے ہونہار فرزند بلاول کی جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیشی اس اعتبار سے ایک بڑا سیاسی واقعہ بن گئی ہے کہ پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے جیالے بھی نیب آفس کے باہر جمع ہوگئے تھے جنہوں نے ہنگامہ آرائی کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ پولیس کے ساتھ گتھم گتھا ہوگئے اور بلاول کے حق میں نعرے بازی سے آسمان سر پر اُٹھائے رکھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’کارِ سرکار‘‘ میں سراسر مداخلت تھی جس پر انتظامیہ حرکت میں آئی اور بہت سے جیالوں کو پکڑ کر اندر کردیا گیا جب کہ اس مظاہرے کا اہتمام کرنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر بیرسٹر مصطفی نواز کھوکھر کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوگیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ یہ صاحب اسلام آباد کے سینئر سیاستدان نواز کھوکھر کے صاحبزادے ہیں۔ نواز کھوکھر خود تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ میں بھی رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے لیکن جب حالات بدلے تو پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور اب ان کا بیٹا بھی پیپلز پارٹی سے اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بن گیا ہے اور اسے اُمید ہے کہ ’’اگلی باری پھر زرداری‘‘ کے فارمولے کے تحت بلاول زرداری وزیراعظم بنے تو وزارت کہیں نہیں گئی، لیکن بلاول خود اس وقت مشکل میں ہیں، نیب نے انہیں اپنے بابا کے کرتوتوں کی پاداش میں طلب کر رکھا ہے اور انہیں جعلی اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس میں سو سوالوں پر مشتمل شیطان کی آنت کے مماثل ایک طویل سوالنامہ پکڑا دیا ہے۔ ادھر ان کے بابا آصف علی زرداری کا حال یہ ہے کہ نیب آفس میں پیشی کے بعد جب ایک اخبار نویس نے ان کا ردعمل جاننا چاہا تو انہوں نے بے اختیار قہقہہ لگاتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
کیوں اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
زرداری کو خوب معلوم ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا یہی انجام ہونا تھا وہ اس انجام سے بچنے کے لیے اپنے سارے داؤ پیچ آزمارہے ہیں اور اُن کا بیٹا بھی اُن کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ سُنا ہے کہ انہوں نے اپنی ساری جائداد اور بینک اکاؤنٹس اپنے بیٹے کے نام منتقل کردیے ہیں کہ وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ بیٹا بھی اس دلدل سے نکلنے کے لیے اپنی ساری تدبیریں آزما رہا ہے۔ ایک تدبیر یہ ہے کہ حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھایا جائے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے۔ حکومت گھٹنے ٹیکتی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ اسلام آباد میں جیالوں کے مظاہرے نے سیاست کے پُرسکون سمندر میں ارتعاش پیدا کردیا ہے اور اپوزیشن جس کے بارے میں عمرانی حکومت کو گمان تھا کہ:
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
وہ اب آنکھیں دکھانے لگی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مظاہرے پر ہمارے کالم نگار بھائیوں نے کئی خیر مقدمی کالم باندھے ہیں اور اسے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حیاتِ نُو سے تعبیر کیا ہے۔ ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہوچکا تھا کہ اس مظاہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی پیپلز پارٹی میں جان باقی ہے اور اس کے کارکن مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں زیادہ جی دار واقع ہوئے ہیں۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کو سیاسی بالادستی حاصل ہے لیکن اس کے کارکنوں میں مزاحمت کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ میاں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، حمزہ شہباز۔ سب نیب میں پیش ہوتے رہے لیکن لیگی متوالوں نے وہ کھڑاک نہیں کیا جو پی پی جیالوں نے کر دکھایا ہے۔ البتہ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ پی پی کے مظاہرے میں کرائے کے لوگ تھے محض ایک مظاہرے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں زندہ ہوگئی ہے۔ ہاں پنجاب کے مختلف شہروں میں دو چار مظاہرے ایسے ہوئے تو اس کی سیاسی قوت کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کارکن مسلم لیگ کا ہو یا پیپلز پارٹی کا، ہوتا تو عوام ہی میں سے ہے اور عوام یہ بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین کرپشن کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ایک کو کرپشن کے الزام میں دس سال قید کی سزا ہوچکی ہے اور وہ جیل میں زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔ دوسرے کے خلاف بھی لوٹ مار کا نہایت مضبوط کیس چل رہا ہے اور عنقریب جیل جانے والا ہے۔ اس لیے وہ ان کی حمایت میں اپنی جان کیوں ہلکان کریں۔ یوں دونوں پارٹیاں عوامی حمایت سے محروم ہو کر سیاست کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہیں اور راوی عمران حکومت کے حق میں چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ البتہ اسے اصل خطرہ دینی جماعتوں کی طرف سے ہے جو کسی وقت بھی دینی مدارس کے خلاف حکومت کے اقدامات، ختم نبوت کے قانون میں ترمیم اور دیگر مذہبی ایشوز پر طوفان کھڑا کرسکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف دھرنا دینے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک بھر کے دینی مدارس کو دھرنے کے لیے دس لاکھ کی افرادی قوت فراہم کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے، اگر اس ٹارگٹ کا چوتھائی حصہ بھی فراہم ہوگیا تو حکومت کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔ یوں بھی حکومت اتحادی بیساکھیوں پر قائم ہے اور ذرا سا جھٹکا اسے زمین بوس کرسکتا ہے۔