سندھ میں سیاسی ماحول کی تبدیلی کی بازگشت 

385

یہ بات تو طے ہے کہ آئندہ چند روز میں کراچی سمیت سندھ کا سیاسی ماحول تبدیل ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ سندھ کی حکومت شدید مشکلات میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ 2019 کی پہلی سہہ ماہی ختم ہوتے ہی بعض بہت اہم شخصیات کو نیب گرفتار کر لے گی۔ جن شخصیات کی گرفتاری کے خدشات ہیں ان میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور اور میئر وسیم اختر بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی فضاء کشیدہ ہوجائے گی۔
اومنی گروپ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اگرچہ آصف زرداری اور دیگر نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی ہوئی لیکن نیب اور عدالت میں پیشی کے وقت ہر بار نہ صرف آصف زرداری بلکہ پوری پیپلز پارٹی کو اس کا ڈر ہوتا ہے کہ آصف زرداری سمیت کرپشن کے مقدمات میں طلب کیے جانے والے ’’بڑوں‘‘ کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان ہی خدشات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے رہنما عدالت اور نیب آفس جاتے ہوئے اپنے کارکنوں کی بڑی تعداد کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں یا وہاں انہیں جمع ہونے کی ہدایت کردی جاتی ہے۔
گزشتہ بدھ کو بھی نیب میں پیشی کے موقع پر ایسا ہی کچھ کیا گیا تھا۔ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو جمع کرنے کا مقصد اپنی ’’عوامی طاقت‘‘ کا اظہار ہی تو ہے۔ مگر یہ سب معصوم و مجبور لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں جو جانے پہنچانے چہرے ہوتے ہیں ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ایسے ’’تماشوں‘‘ میں اپنی موجودگی سے اس بات کا اظہار کریں کہ وہ بھی پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ہیں۔ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ خود بھی اپنی گرفتاری تک دے سکتے ہیں۔ کرپٹ سیاسی عناصر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ’’عوامی طاقت‘‘ دکھا کر ’’قانون‘‘ کو ان کی گرفتاریوں سے باز رکھیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کے خیالات درست ہیں۔ کیا ان عناصر کے دباؤ میں قانون اور اس سے متعلق شخصیات آجائیں گی؟ ایسا تو نہیں کہ ان سے بھی ’’کورٹ ڈیل‘‘ ہوجائے۔
ملک میں قانون کی بالادستی کا شور تو بہت ہے لیکن اس کا مظاہرہ نظر نہیں آتا۔ وزیراعظم عمران خان نیب کی جاری کارروائیوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرکے عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں۔ چند روز قبل سینئر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’نیب بڑے کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالے۔ نیب کے پاس افرادی قوت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیب بڑے بڑے لوگوں کو عبرتناک سزائیں دلوائے گا۔ بڑوں کو سزا ملنے پر چھوٹے بدعنوان خود بخود راہ راست پر آجائیں گے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان کرپٹ عناصر کے حوالے سے ان کی خواہش ہے لیکن یہ بات بھی تو درست ہے کہ نیب کی مجموعی کارکردگی سے وزیراعظم اور ان کی حکومت بھی مطمئن نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف نیب کی سخت کارروائی پر اچانک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنما ’’آپے سے باہر‘‘ نظر آتے ہیں۔ بلاول زرداری کا نیب کی کارروائیوں اور نیب میں پیشی کے بعد بیان بھی اسی بات کی عکاسی ہے۔ بلاول کا یہ کہنا کہ دہشت گردی کے الزامات کے باوجود بعض شخصیات کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ بھارت کی زبان بولنے کے مساوی قرار دیا جارہا ہے۔ عام اور خاص لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ بلاول جیسے نابالغ سیاست دان کسی کے کہنے پر یا خود سے ایسے بیانات دے کر براہ راست ملکی معاملات کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ان بیانات سے پڑوسی دشمن ملک اور دیگر ملک مخالف قوتوں کے موقف کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ ملک اور اس کے نظام کو بدنام کرنے والوں کے اس طرح کے بیانات کو عدالت عظمٰی کو نوٹس لینا چاہیے بلکہ ایسے بیانات پر این جی اوز اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی قانونی کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ جبکہ عام افراد کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ملک کے کرپٹ سیاستدان اپنے اوپر لگے گئے الزامات کے ردعمل پر کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ کرپٹ عناصر بڑے یا چھوٹے نہیں ہوتے وہ صرف بدعنوان ہوتے ہیں۔ انہیں گرفت میں لینے کے لیے قانون میں مزید سختیاں لانے کی ضرورت ہے تو فوری لانا چاہیے۔ تاکہ سرکاری خزانے کی رقوم واپس سرکاری خزانے میں آسکے اور دوبارہ کوئی کسی بھی قسم کی کرپشن کا سوچ بھی نہ سکے۔