امکانات کا کھیل

238

میٹرک کا امتحان دے کر ہم اپنے آبائی گاؤں بٹ گرام گئے ہوئے تھے ایک دن دو بچوں کو کسی بات پر تکرار کرتے دیکھا ان کے انداز گفتگو اور حرکات نے خاصا حیران کیا۔ ایک بچہ کہنے لگا مجھ سے لڑنے کے بارے میں سوچنا بھی مت، میری ماں مجھے بہت مضبوطی سے باندھا تھا۔ ہم نے اپنے چچا سے پوچھا۔ یہ لڑکا کہنا کیا چاہتا ہے۔ چچا جان نے کہا ہمارے ہاں شیرخوار بچوں کو باندھ کر کپڑے کے جھولے میں ڈال دیا جاتا ہے جب تک بچے کو بھوک پیاس نہیں ستاتی وہ سکون کے ساتھ جھولے میں پڑا رہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ماں کی گود میں ہوں یہ تو بچے کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ تم ایسا سوچ سکتے ہو کیوں کہ پنجاب کے شہروں میں
عورتیں کام نہیں کرتیں، بچہ جوں ہی رونے لگتا ہے گود میں اٹھا لیتی ہیں ہمارے ہاں عورتیں گھر میں اور کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں اس لیے شیر خوار بچوں کو باندھ کر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ماں کی گود میں ہے۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ ماں بچے کو جتنی مضبوطی سے باندھتی ہے بچہ اتنا ہی مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی پیدا ہوتے ہی ماں کی سیاست کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر ماں کو سیاست کار نہیں کہا جاسکتا، ماں اول و آخر ماں ہوتی ہے۔ اس کا ایک ہی چہرہ ہوتا ہے جو مہر و محبت اور خلوص و اخلاص کے جذبے سے دمکتا رہتا ہے۔ سیاست دانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ اور ہیں۔
ان دنوں ٹی وی اینکرز اور سیاسی مبصرین کا موضوع سخن میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں ان کے تبصروں کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری اب تک جو کچھ میاں نواز شریف کے بارے میں کہتے رہے ہیں اس کے پس منظر میں اتحاد ممکن ہی نہیں۔ ایسا سوچنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے یہاں آج کے دوست کل کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست ہوسکتے ہیں۔ ہم پہلے بھی انہی کالموں میں کہہ چکے ہیں کہ آصف علی زرداری جو کچھ میاں نواز شریف کے بارے میں کہتے رہے ہیں وہ صرف اور صرف سیاسی بیانات ہوتے ہیں۔ دل کی دھڑکنیں کچھ اور کہتی ہیں۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کا یہ بیان توجہ طلب ہے کہ اگر اب ہم نے میاں نواز شریف کا ساتھ نہ دیا تو خدا ہمارا ساتھ نہیں دے گا اور ہم اللہ میاں کو خفا کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ حکومتوں کی ناراضی نئی بات نہیں ہے ہم اس کے عادی ہیں اور ان سے نمٹنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اس ضمن میں ہم کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے کہ آصف زرداری، کی اللہ میاں سے کیا مراد ہے البتہ یہ بات پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مذکورہ بیان کا تعلق مراد علی شاہ سے ہرگز نہیں۔ اس حقیقت سے چشم پوشی غیر دانش مندانہ ہوگی کہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف ایک ہی کشتی کے سوار ہیں سو، یہ بات یقینی امر ہے کہ وہ کشتی ڈوبنے نہیں دیں گے، کشتی ڈوبی تو ان کی لٹیا بھی ڈوب جائے گی اور جہاں تک اعتزاز احسن کا تعلق ہے تو وہ اتنے اہم نہیں کہ آصف علی زردارای ان کے مشورے پر عمل کریں یوں بھی اعتزاز احسن دو کشتیوں کے سوار ہیں اور ان کی مشکل یہی ہے کہ ان کے لیے دونوں کشتیاں ہی اہم ہیں، وہ عدالت کو خدا حافظ کہہ سکتے ہیں نہ سیاست سے قطع تعلق کرسکتے ہیں کہ دونوں ہی ان کی ضروریات کا حصہ ہیں۔بلاول زرداری کا میاں نواز شریف کی عیادت کے لیے کوٹ لکھپت جیل جانا ایک اچھا اقدام ہے یوں بھی کسی بیمار کی عیادت کرنا کار ثواب ہے۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ وطن عزیز کی سیاست میں ثواب کو عذاب کا ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے اس سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ شاید ڈاکٹر عافیہ سے دور رہنے کی بڑی وجہ یہی ہو۔