بلاول، بیانیہ اور نظریہ

417

بلاول زرداری شدید غصے اور اشتعال میں ہیں۔ وہ مسلسل گرج بر س رہے ہیں کہ حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف مصنوعی کارروائیاں کر رہی ہے۔ وہ کالعدم تنظیموں کے مالی معاملات پر جے آئی ٹی قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے نام پر انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے کہ کہیں بھارتی جہاز انہیں اُڑانہ دیں۔ وہ تین وزراء کے کالعدم تنظیموں سے تعلقات کی بات بھی کرتے ہیں۔ بلاول نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک ٹویٹ میں ساری بات سموتے ہوئے کہا کہ بھاڑ میں جائے تمہارا بیانیہ میرا نظریہ تو نہیں بدل سکتا تمہارا بیانیہ بدلتا رہتا ہے۔ بلاول ایک قومی سیاسی جماعت کے اُبھرتے ہوئے راہنما ہیں۔ وہ ایک سیاسی ورثے کو آگے لے کر چلنے کے علم بردار ہیں۔ وہ جس سیاسی جماعت کے سربراہ بننے جا رہے ہیں وہ ملک کے تلخ وشیریں ماضی کا حصہ ہے۔ ملک میں کئی بار حکومت کر چکی ہے۔ حکمران جماعت کے طور پر اس کے بہت سے راہنماؤں کے سینوں میں اس ملک کے کئی سیاسی اور دفاعی راز بھی ہوں گے اور ان لیڈروں نے ان رازروں کی پاسداری کا حلف بھی اُٹھایا ہوگا۔ یہ کسی ایک واقعے کے ردعمل میں اُبھرنے والی تنظیم نہیں کہ جسے ابھی اپنی مقبولیت اور مقاصد کے حصول کے لیے جلاؤ گھیراؤ اور سخت سے سخت لب ولہجے کی ضرورت ہے۔ اگر بلاول زرداری کا نظریہ واقعی یہی ہے جس کا وہ کئی دن سے اظہار کر رہے ہیں تو پھر یہ موجودہ دنیا میں تیزی سے پٹتا ہوا نظریہ اور ناکام ہوتی ہوئی پالیسی کا حصہ ہے۔
مارا ماری، پکڑ دھکڑ کی یہ پالیسی اسی روز پِٹ گئی تھی جب افغانستان میں دنیا بھر کی فوجی طاقت اور اجتماعیت کے خلاف پہلی گولی چلی تھی۔ پھر یہ سلسلہ چلتے اور بڑھتے ہوئے سترہ بر س پر محیط ہوگیا تھا۔
بلاول ان دنوں شدید غصے اور اشتعال میں ہیں۔ وجہ اس کی جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات اور باز پرس ہے۔ مفاہمتی سیاست کے بادشاہ سمجھے جانے والے آصف زداری اب بھی یہ سمجھتے تھے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتیں اور حکومت کی عددی مجبوریاں کوئی معجزہ اور کرشمہ دکھادیں گی اور ان کی مفاہمتی سیاست کا جادو یوں چل جائے گا کہ ماضی کی باتیں افسانے قرار پائیں گی اور یوں ہمیشہ کی طرح سارے سیاسی فریق ایک بار پھرکسی کہانی کے انجام کی طرح ’’ہنسی خوشی رہنے لگیں گے‘‘۔ اس کہانی کو چودھری شجاعت حسین کی زبان میں ’’مٹی پاؤ‘‘ کا عنوان دیا جائے گا۔ تاریخ کی روشنی میں یہ امید چنداں غلط نہیں تھی۔ اس بار یہ سب امیدیں اور اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ قانون اپنا راستہ بناتا جا رہا ہے اور بلاول کراکری کی دکان میں سانڈ کے انداز میں اپنے ’’نظریات‘‘ کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بلاول جس نظریے کے پرچارک بن رہے ہیں وہ موجود ہے اور آج سے نہیں عرصہ دراز سے اپنا وجود رکھتا ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ پاکستان دنیا اور اس خطے میں دہشت گردی کا مرکز ہے۔ اس کی فوج اور ریاستی ادارے دنیا بھر کے دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ امریکا، بھارت، افغانستان اور اسرائیل اس نظریے کے پر موٹر ہیں۔ امریکا پاکستان میں کاونٹر میلٹنسی سے چشم پوشی کرے، بھارت پاکستان میں سبوتاژ کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ نیٹ ورکس تشکیل دے اور اسرائیل اسے کارخیر سمجھ کر اپنے مادی اور افرادی وسائل فراہم کرے تو وہ دہشت گرد نہیں مگر دہشت گردی کے ہر نغمے کی تان پاکستان پر توڑنا لازمی ہے۔
اسی کی دہائی میں جہاد کا جو کام افغانستان میں شروع ہوا امریکا کی سرپرستی اور سرمائے کا اس میں گہرا دخل تھا۔ تب چارلی ولسن جیسے امریکی افغان مجاہدین کو دنیا بھر میں گلیمرائز کرنے کے لیے فلمیں بناتا اور گھوڑوں پر بیٹھ کر جہادی اسٹائل میں اپنے پورٹریٹ چھپوا کر جہاد کو دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے پرکشش بناتا تھا۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن وائٹ ہاؤس میں سات جماعتی مجاہدین اتحاد کے سربراہ مولوی یونس خالص کا سرخ قالین بچھا کر انتظار کرتے۔ ان کے ناشتوں کا اہتمام کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے۔ مولوی یونس خالص کے ایک علاقائی کمانڈر کا نام مولانا جلال الدین حقانی تھا۔ انہی مولانا جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی گزشتہ سترہ برس سے امریکی اور ناٹو فورسز کو افغانستان میں سب سے زیادہ سرگرم گوریلا لیڈر کے طور پر مطلوب ہیں اور ان کی سرپرستی کا الزام پاکستان پر دھرا جاتا رہا ہے۔ انہی کی قیادت میں کام کرنے والوں کو حقانی نیٹ ورک کا نام دیا گیا ہے۔ جہاد کے پورے عرصے اور طالبان کے ظہور اور اس کے بہت عرصہ بعد تک امریکا اور پاکستان شانہ بشانہ چلتے رہے۔ مقاصد اور سمتیں اس وقت جدا ہوئیں جب نائن الیون کے بعد امریکا کو دنیا کے نقشے کی تشکیل نو کا نشہ چڑھ گیا۔ مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک ایک نئے انداز کی جمہوریت متعارف کرانے کا خیال سوجھا۔ عالم عرب میں پرانی بادشاہتوں اور آمریتوں کو گرا کر تازہ دم حکمرانوں کو آگے لانے کی حکمت عملی اپنانے میں دلچسپی ہونے لگی۔ اس کے بعد امریکا اور پاکستان کے مقاصد بدلتے چلے گئے۔
طالبان کے ظہور میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی نہ ہوتی تو بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر طالبان کو ’’اپنے بچے‘‘ نہ کہتے۔ طالبان کی تخلیق کے وقت پشتون علاقوں میں گلبدین حکمت یار کے اثر رسوخ کو ختم کرنا امریکا اور پاکستان کی مشترکہ ضرورت تھا۔ یوں امریکا اور پاکستان نے جہادی نظریات کو مضبوط کرنے کے لیے جو کچھ کیا مشترکہ طور پر کیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ دونوں کی ضرورتیں اور مقاصد مختلف تھے۔ دونوں کے لیے اچھے اور برے طالبان کے تصورات تبدیل ہوگئے۔ امریکا صرف ان طالبان کے خلاف مارا ماری چاہتا تھا جو اس کے مفاد کے لیے خطرہ تھے اور ظاہر ہے پاکستان کو اپنے مفاد کی فکر تھی۔ یہ تو افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد مولوی یونس خالص کے دست راست اور جہاد کے افسانوی کردار مولوی عبدالحق طالبان کے ہتھے چڑھ کر قتل نہ ہوتے تو لامحالہ حامد کرزئی کی جگہ وہی افغانستان کے صدر ہوتے اور طالبان کے بعد کے افغانستان کا پہلا صدر ایک نامور جہادی کمانڈر ہوتا۔ جس حکمت یار کو برسوں امریکا دہشت گرد قرار دیتا رہا ایک دن اپنا نظریہ اور بیانیہ بدلتے ہوئے اسے تمام پابندیوں سے آزاد کردیا اور وہ کابل میں ایک آن بان اور شان سے داخل ہوئے۔ جن طالبان کی حمایت پر پاکستان کو سترہ برس تک امریکا مطعون کرتا رہا آج امریکی نمائندے انہی کے ساتھ ’’دم پخت‘‘ کی ضیافتیں قطر میں اُڑ رہے ہیں۔ یہ جو جدید دہشت گردی کا کھیل ہے بلاول اس کو اتنی سنجیدگی سے اپنے اوپر طاری نہ کریں ہو نہ ہو کسی دن زلمے خلیل زاد کی طرح ملا ملٹری الائنس کی اصطلاح کے تخلیق کار انکل حسین حقانی کوآئی ایس پی آر میں سموسے اور قیمے بھری کچوریاں تناول فرماتے نظر آئیں گے۔