بولو جی تم کیا کیا خریدو گے 

474

شاہ کے مصاحب پہلے اتراتے پھرتے تھے اب سول ایوارڈز کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ جن دنوں پاکستان میں گھوڑے دستیاب تھے سول ایوارڈز وہ اصطبل تھا جہاں گدھے اور گھوڑے ساتھ باندھے جاتے تھے۔ اس برس ادب صحافت اور کلچر کے حوالے سے جن شخصیات کو ایوارڈز دیے گئے اس پر لوگ حیران ہیں۔ جن صاحب نے تیس پنتیس سال بعد بابرہ شریف کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ہے کمال کیا ہے۔ بابرہ شریف بوٹے سے قد کا وہ پٹاخہ تھیں جو چپ رہ کر پلکوں سے گرتے آنسوؤں سے داستان کہنے کا ہنر جانتی تھیں۔ ریما بھی طویل عرصہ سے ایک ڈاکٹر کا بائی پاس کرنے کے بعد گھر بسائے بیٹھی ہیں۔ ریما اور بابرہ شریف اس دور کی یادگار ہیں جب سبزیاں ہنڈیاں میں پکائی جاتی تھیں انہیں بصد ناز پیزا پر نہیں چپکایا جاتا تھا۔ ایک ایسے دور میں جب لوگوں کو اپنے پردادا تو کجا دادا کا نام بھی یاد نہیں رہتا بابرہ شریف اور ریما کو عمر رفتہ سے اِدھر آواز دینا حیران کن ہے۔ وہ خود بھی عمر کی اس منزل میں ہیں کہ اب انہیں صرف عقیدت کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو تکلیف بابرہ اور ریما سے نہیں پرابلم مہوش حیات سے ہے۔ مہوش حیات کو جب سے ایوارڈ دیا گیا ہے سخنوران فیس بک کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے مقابلہ ہے کہ دیکھیں کون مہوش کی زیادہ خوبصورت پیرہن سے جھلکتی تصویر پوسٹ کرتا ہے۔ مہوش اتنی خوبصورت ہے کہ اسے پوچھنا نہیں پڑتا میں کیسی لگ رہی ہوں۔ مہوش سے ملنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہی زندگی اور بٹوے کا خلا ہے۔ مہوش کو شادی کرنے کے لیے کسی آنٹی کے کپڑوں پر سالن گرانے کی ضرورت نہیں۔
نہ جانے مہوش کو ایوارڈ دینے پر لوگ اتنے معترض کیوں ہیں۔ مہوش کا تو نام ہی ایسا ہے کہ نام سے اردوکا مہ ہٹادیں تو انگلش کا وش باقی بچتا ہے۔ مہوش نے کسی سے ایوارڈ کی وش کی ہوگی اس اللہ کے نیک بندے کو خیال آگیا۔ جھوٹ برگردن راوی اس کی وجہ مہوش کی ایک ریسرچ بھی بتائی جاتی ہے جس میں اس نے انکشاف کیا تھا کہ ہم تو چپلوں کے بغیر چل سکتے ہیں لیکن چپلیں ہمارے بغیر نہیں چل سکتیں۔ فلم انڈسٹری میں آنے سے پہلے مہوش شادی کرکے کسی کا گھر بسانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک سال تک وظیفہ بھی پڑھتی رہیں۔ جب اسے پتا چلا کہ یہ وظیفہ نہیں سعودی عرب کا قومی ترانہ ہے تو اس کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ٹوٹا دل لے کر فلم انڈسٹری میں آگئی۔ مہوش نے ایک مرتبہ اپنے ایک چاہنے والے سے کہا تھا لوگ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا دعویٰ کرتے ہیں کچھ تو فرط جذبات میں چاند تک پہنچ جاتے ہیں یہ سب بکواس ہے تم کوئی ایسا وعدہ کرو جو حقیقت بھی ہو اور ان سے بڑھ کر بھی۔ چاہنے والے نے دھیرج سے جواب دیا مہوش میں تمہارے قدموں تلے جنت لا سکتا ہوں۔ تب سے مہوش جنت سے بور ہو کر اعضا کی شاعرہ بن گئی۔ پاکستانی فلموں میں آئٹم سونگ کی خالق۔ آئٹم سونگ کے حوالے سے پاکستانی فلمیں مٹھائی کی ایسی دکان تھیں جن میں صرف شوگر کے مریض کو ملازم رکھا جاتا تھا۔ فلمیں ایسے کیمروں سے بنائی جاتی تھیں کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ آسمان پر جہاز دکھایا جارہا ہے یا چیل منڈلا رہی ہے۔ اچھے کیمرے استعمال بھی کیے جاتے تھے تو وارنٹی ختم ہونے کے بعد۔ مہوش ایسے آئٹم سونگ کرتی ہے کہ گھر آنے کو دل نہیں کرتا۔ الیکشن مہم ہو یا ایوارڈز کی تقسیم گانا بجانا اور ناچنے گانے والے عمران خان کے ہم رکاب ہیں۔ وہ انہیں اہمیت دیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جس نگری میں عقل اور شعور کے بجائے گھنگروؤں کو نوازا جائے وہاں بھوک ناچتی ہے نفس ناچتا ہے، ایمان ناچتا ہے، انسانیت ناچتی ہے۔ جہاں تا تھیا تھیا ہو وہاں سچائی نہیں فریب خوش رہ سکتا ہے۔
یہ ایک سنجیدہ معاملہ تھا جسے ہم نے ہلکے پھلکے نمٹا دیا۔ تفنن برطرف۔ اب آئیے ایک اور سنجیدہ معاملے کی طرف۔ دوسرا ایوارڈ جس پر لوگ حیران ہیں ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایوارڈ اعلیٰ عدلیہ نے ملک ریاض کو دیا ہے یا ملک ریاض نے عدلیہ کو۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد تعمیراتی صنعتوں سے منسلک دیگر 52صنعتوں کو بھی نئی زندگی مل گئی ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز، خریداروں اور سرمایہ کاروں، مزدوروں اور الاٹیز کے چہرے بھی کھل اٹھے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے جہاں ہزاروں نہیں لاکھوں گھروں کو مسرت اور شادمانی سے ہمکنار کیا ہے وہاں کچھ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کو ریگولرائز کرنے کے لیے ملک ریاض کی طرف سے عدالت کو متعدد پیش کشیں کی گئیں۔ بالآخر 460ارب روپے کی پیش کش عدالت کی طرف سے قبول کی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رقم کے عوض غیر قانونی قبضہ کی گئی زمین کو ریگولرائز کرانے کی جو سہولت بحریہ ٹاؤن کو دی گئی وہی سہولت کراچی ایمپریس مارکیٹ، لنڈا بازار، اردو بازار اور دیگر علاقوں کے مکینوں کو کیوں نہیں دی گئی جو ساٹھ ساٹھ سال سے وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور کرایہ بھی دے رہے تھے۔ کراچی میں سرکاری کواٹرز کے مکین مسلسل خوف کے عالم میں ہیں۔ جو خیال بحریہ ٹاؤن سے وابستہ افراد کا کیا گیا ان غریب لوگوں کا کیوں نہیں کیا گیا جنہیں انتہائی ظالمانہ طریقے سے بے روز گار کردیا گیا۔ ملک ریاض کو پاکستان کا سب سے بڑا قبضہ گیر کہا جاتا ہے۔ جو ایک طرف زمینوں پر قبضے کرتا ہے، اونے پونے خریدتا ہے اور پھر کروڑوں روپے میں بیچ کر سلطانہ ڈاکو کی طرح لوگوں میں دولت تقسیم کرتا ہے، لنگر خانے کھلواتا ہے، انتہائی شاندار مساجد تعمیر کرواتا ہے اور نہ جانے کون کون سے فلاحی کام کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا ملک ریاض کے مشہور عالم پہیے عدالت عظمیٰ تک بھی جا پہنچے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو لیکن لوگوں کو زبانیں دراز کرنے کا موقع خود عدلیہ نے ہی مہیا کیا ہے۔
بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ تجاوزات کے زمرے میں آتی ہے لیکن عدالت عظمیٰ نے جرمانہ یا فیس ادا کرکے ریگولرائز کرانے کا حکم دے رکھا ہے۔ جب کہ ایک بیوہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قدموں میں گر کر بے ہوش ہوگئی تھی پھر بھی اس کی رہائش گاہ کو گرادیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بنی گالہ اور سیکٹر 11-E میں تعمیرات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے کر ان کی ریگولرائزیشن کی شدید مخالفت کی تھی۔ بنی گا لہ کے ساتھ ہی ساتھ شاہراہ دستور پر ٹاور نمبر ایک کی ریگولرائزیشن بھی ہمارے نظام عدل کا شاہکار ہے۔ یہ عمارت بھی بنی گالہ کی طرح ماسٹر پلان کے خلاف تعمیر کی گئی ہے لیکن چوں کہ اس میں عمران خان سمیت موجودہ اور سابقہ حکومتی وزرا کے قیمتی اپارٹمنٹ ہیں اس کی طرف بھی کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا معاملہ بھی بحریہ ٹاؤن کی طرح نمٹادیا گیا تھا۔ صرف تین کروڑ روپے کے عوض۔ نہ کوئی منی ٹریل، نہ جے آئی ٹی، نہ میڈیا ٹرائل، نہ کسی ڈکشنری سے مدد۔
عدالتیں بحریہ ٹاؤن کو ریگولرائز کریں، بنی گالہ کو ریگولرائز کریں، ٹاور نمبر ایک کی ریگولرائزیشن کریں علیمہ خان کو قانونی چھتری مہیا کریں ست بسم اللہ۔ لیکن اس قتل عام پر بھی نظر کریں جو تجاوزات کے نام پر کیا گیا ہے۔ بے وقت موت بے وقت بے روزگاری۔ ہر غریب کے دل میں دھڑکا نہ جانے کب اس کا گھر، اس کی دکان، اس کا پتھارہ، اس کا ٹھیا، اس کی ریڑھی کو اور خود اسے تجاوزات قرار دے کر مسمار کردیا جائے۔ اور آخر میں ایک سوال!!! عدالت عظمیٰ نے ملک ریاض کو 460ارب کی مکمل ادائیگی سات برس میں کرنے کا حکم دیا ہے۔ پہلے چارسال ڈھائی ارب ماہانہ قسط مقرر کی گئی بقیہ رقم آخری تین برس میں 4فی صد مارک اپ کے ساتھ ادا کرنا ہوگی۔ یقیناًمارک اپ کی ادائیگی کا حکم آئین پاکستان کے تحت دیا گیا ہے۔