کیا فائیو جی ٹیکنالوجی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟

276

نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا بھر میں موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن (5G) متعارف کروانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن یعنی فائیو جی میں ہائی فریکوئنسی اور بینڈ وتھ استعمال کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے صارفین ماضی کے مقابلے میں کئی گنا تیزی سے ڈیٹا ڈاؤن لوڈ اور اپ لوڈ کر سکیں گے۔ اس ٹیکنالوجی سے فی سیکنڈ 10 گیگا بائٹ منتقل ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک جی نیٹس کے لیے 700 میگا ہرٹس سے 6گیگا ہرٹس کی فریکوئنسیاں استعمال کی جا رہی تھیں لیکن اب فائیو جی میں 28 سے 100 گیگاہرٹس کے درمیان فریکوئنسیاں استعمال کی جائیں گئی۔ موازنہ کرنے کی صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ فور جی انٹرنیٹ تھری جی سے 10 گنا زیادہ تیز تھا لیکن فائیو جی فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرے گا۔ سوئیڈن کی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ایریکسن کے اندازوں کے مطابق 2024ء میں دنیا کی 40 فیصد آبادی فائیو جی ٹیکنالوجی استعمال کرے گی۔
کیا ہمیں فکرمند ہونا چاہیے؟ :حال ہی میں دنیا بھر سے تقریباً 250 سائنسدانوں نے اقوام متحدہ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس میں ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو انٹینا سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان (ای ایم ایف) پیدا کرتی ہیں، جن سے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’اس کے اثرات میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، سیلولر اسٹریس، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی ساخت اور فعال میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کے عمل میں کمزروی شامل ہیں۔‘‘ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ موبائل سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی رویے کے ساتھ اعصابی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ٹو جی، تھری جی اور فور جی سے متعلق ہونے والے کئی سائنسی مطالعے مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ برقی مقناطیسی میدان انسان کی صحت پر کیا اثرات چھوڑتے ہیں؟ ایسے مطالعات میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسمارٹ فونز کے سگنلز اسٹریس کے ساتھ تولیدی نظام، انسانی دماغ میں برقی تبدیلیوں اور ڈی این اے کے لیے نقصان دے ہیں۔ سائنسدانوں کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ برقی مقناطیسی شعاعیں جانوروں اور پودوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ سارا ڈرائسن جرمنی کی مشہور آخن یونیورسٹی میں ’’برقی مقناطیسیت اور ماحولیاتی مطابقت‘‘ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چوہوں کو 2 سال کے لیے دن میں تقریباً 9 گھنٹے برقی مقناطیسی میدان کے زیر اثر رکھا گیا تھا۔ 2 سال میں چوہوں کے اعصابی نظام، دماغ، دل اور تولیدی نظام میں تبدیلیاں پیدا ہو گئیں تھیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ’’اگر لہریں ملی میٹر میں اور زیادہ طاقتور ہوں گی جیسا کہ فائیو جی میں ہو رہا ہے، تو ابھی تک کی نسبت صورتحال مزید سنجیدہ ہو جائے گی۔‘‘ کچھ سائنسدان بچوں کو لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہیں۔ بچوں کی کھوپڑی چھوٹی ہونے اور اس کی ہڈیاں کمزور ہونے کہ وجہ سے ان شعاعوں کا ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔ دریں اثنا جرمنی میں ریڈی ایشن سے تحفظ کے وفاقی دفتر (بی ایف ایس) نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے انسانی صحت کے خلاف خطرات جاننے کے لیے بنیادی تحقیق کروانے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ اس ملک میں بھی جلد ہی یہ ٹیکنالوجی متعارف کروا دی جائے گی۔