ایک بارپھر آئی ایم ایف کو دستک

297

ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 12 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پاکستان کے معاملات حتمی مراحل پر پہنچ گئے ہیں اور یکے بعد دیگرے آئی ایم ایف کے مختلف سطح کے اہلکار ان کے چیف سمیت پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ملکی معیشت، بجٹ خسارہ، ٹیکسوں کی وصولی، زرمبادلہ کی شرح، گردشی قرضے اور رواں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جیسے موضوعات پر بات چیت کرچکے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف نے حکومت کے سامنے اپنی شرائط بھی رکھ دی ہیں اور اِن شرائط کی تھوڑی بہت تفصیل جو عوام کے سامنے آئی ہے اس میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا اور بجلی کی تقسیم و ترسیل اور چوری کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے 200 ارب نرخوں میں اضافے کے ذریعے پورے کیے جائیں گے۔ ایسا ہی معاملہ گیس کی تقسیم و ترسیل کا ہے، اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی ایک شرط جو ہر قرضے میں شامل ہوتی ہے وہ یہ کہ اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستانی بجٹ کے تین اہم خرچے یعنی دفاع، قرضوں کی واپسی اور پیداواری اخراجات ہیں، اب اِن میں سے شروع کے دو اخراجات پر ہاتھ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ آخری میں پیداواری یعنی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، ریلوے کے سفر کی بہتری، پانی کی بہتر فراہمی، تعلیم و صحت وغیرہ۔ چناں چہ یہ اخراجات کم کردیے جاتے ہیں جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔ مزید ایک اور شرط جس کا بار بار تذکرہ ہورہا ہے وہ ڈالر کے ساتھ پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں روپے کی قدر میں ویسے ہی 30 فی صد کمی ہوچکی ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرط یہ ہے کہ ڈالر اور روپے کے تبادلے کو آزادانہ چھوڑ دیا جائے جس سے اس کی قدر میں اور کمی ہوسکتی ہے۔
یہ وہ شرائط ہیں جو ملکی معیشت کی نمو، صنعتوں کی پیداواریت، نجی سرمایہ کاری اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے منفی اثر رکھتی ہیں۔ معاشی ترقی کی شرح جو پہلے ہی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق کم ہوگئی ہے وہ اور کم ہوجائے گی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتی پیداوار میں مزید کمی ہوگی۔ بلند شرح سود کے باعث نجی سرمایہ کاری پہلے ہی نیچے آگئی ہے وہ مزید نیچے آجائے گی۔ روزگار کے مواقعے اور کم ہوں گے، بیروزگاری میں اضافہ ہوگا، اسی کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پہلے ہی غیر یقینی کا شکار ہے اور اس سے پچیس تیس منسلک صنعتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ایسے میں آئی ایم ایف کا 12 ارب ڈالر کا پیکیج منظور ہو بھی گیا تو اس سے عوام کو کیا ملے گا، حال ہی میں ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران میں انہوں نے دہشت گردی، دوطرفہ تجارت، آئی ٹی، حلال فوڈ اور آٹو موبائل سیکٹر میں تعاون جیسے موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے کرپشن اور آئی ایم ایف کا بھی ذکر کیا۔ کرپشن کے بارے میں کہا کہ کرپشن ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب کہ آئی ایم ایف کے بارے میں اُن کی رائے یہ تھی کہ آئی ایم ایف کی شرائط اصل میں اِس لیے ہوتی ہیں کہ اس کا قرضہ آسانی سے واپس ہوسکے۔ ملک کی معاشی ترقی، صنعتوں کی بحالی، عوام کی فلاح وبہبود اور مہنگائی اور بے روزگاری سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ملک معاشی طور پر اور بدحال ہوجاتا ہے اور قرض کی واپسی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ 1997ء میں مشرقی ایشیائی ممالک میں جب مالیاتی بحران آیا جس سے اِن ممالک کی کرنسیوں کی قدر بہت کم ہوگئی، صنعتی پیداوار اور برآمدات بُری طرح متاثر ہوئیں، مہنگائی میں اضافہ اور روزگار میں کمی ہوئی، ایسے میں تمام ممالک نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا، صرف ملائیشیا ایسا ملک تھا جس نے اس بحرانی دور میں بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لینا گورہ نہ کیا۔ دنیا کے بے شمار دوسرے ممالک کی مثالیں موجود ہیں، مثلاً ارجنٹائن، یونان، رومانیہ، تنزانیہ وغیرہ جہاں آئی ایم ایف کے قرضے کے بعد ملکی معیشت بہتر نہ ہوسکی۔
انہی حالات کو دیکھتے ہوئے جناب عمران خان نے تخفیفِ غربت کا پروگرام شروع کردیا ہے جس میں غریبوں کو ٹھیلے اور چھابڑیاں فراہم کی جائیں گی، ای او بی آئی (EOBI) کی پنشن 5200 روپے سے 6500 روپے ہوجائے گی، کچی آبادیوں میں فلیٹس بنا کر دیے جائیں گے، خواتین کے لیے 37 لاکھ سیونگ اکاؤنٹس کھولے جائیں گے، عوام حیران ہیں کہ ایک طرف بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے جارہے ہیں اور دوسرے تخفیفِ غربت کے اعلانات بھی ہورہے ہیں۔ کیا یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا خواب عمران خان نے پاکستانی عوام کو دکھایا تھا۔