ریلیف چاہیے

318

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے عندیہ دیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے بات چیت جاری ہے امید ہے کہ شرائط نرم ہوں گی۔ پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری نظام کا اہم فورم ہے اور اسی فورم کی ایک کمیٹی کے روبرو وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا ڈالر مارکیٹ ریٹ پر لانے کا تقاضا ہے، ملک میں گیس اور بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے گا اور یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوا‘ اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا بتایا گیا ہے: کہیں غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا والی بات نہ ہو۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ عوام اور محروم طبقات غربت‘ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور روزگار سے متعلق اپنے گوناں گوں مسائل کا شکار ہیں انہی مسائل سے نجات کے لیے تحریک انصاف کو ووٹ ملے اب تحریک انصاف یہ مسائل حل کرکے یہ بات ثابت کرے کہ واقعی اسے ووٹ ملے ہیں۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد قوم سے اپنے پہلے نشری خطاب میں ریاست مدینہ کا تصور بھی پیش کیا تھا اور باور کرایا کہ وہ ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے متمنی ہیں یہ تصور ریاست بہت خوب ہے اور بے مثال ہے اس لیے کہ ریاست مدینہ کا تصور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ساتھ ایک فلاحی مملکت کا تصور ہے جس میں شہریوں کی تعلیم‘ صحت اور روزگار کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے، آئین و قانون کی حکمرانی‘ میرٹ اور انصاف کی عمل داری ہوتی ہے، اقرباپروری کے لیے ریاست مدینہ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، یہ درحقیقت ایک ایسی جدید جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کا تصور ہے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے اپنی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔
یہ ملک مفاد پرست سیاست دانوں کے ہتھے ضرور چڑھتا رہا جنہوں نے یہاں جمہوری اقدار اور آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور ملیامیٹ کرکے شخصی آمریت مسلط کرنے کے راستے نکالے جبکہ عوام کی اس ارض وطن کو فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھالنے کی توقعات منتخب جمہوری ادوار میں بھی پوری نہ ہو سکیں عوام اشرافیہ طبقات کی ناجائز بخششوں اور قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کے فروغ پاتے کلچر میں مسلسل غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل کی جانب دھکیلے جاتے رہے جبکہ بیرونی قرضوں میں جکڑی ہماری معیشت نے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں مزید اضافہ کیا تحریک انصاف بار بار کہہ رہی ہے کہ عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت عملاً قومی معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں تھی‘ عوام نے بھی یہ بات تسلیم کرلی مگر اب وہ مسائل کا حل چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اپنا ویژن بھی دے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں اور گردشی قرضے ختم ہوجائیں صورت حال سے خود حکومت بھی مطمئن نہیں ہے بیرونی قرضوں کا حجم
بھی بغیر کوئی نیا قرضہ لیے 20 سے 35 فی صد تک مزید بڑھ گیا اسی دوران آئی ایم ایف کی ٹیم بھی پاکستان میں آکر بیٹھ گئی اور خبر دی جارہی ہے کہ بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور پانی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ ہوگا عوام نے بادی النظر میں یہی محسوس کیا کہ ان پر مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہی پر مسلط کی جارہی ہے حکومت کو برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور ہمیشہ کے قابل بھروسا دوست ہمسایہ ملک چین کی جانب سے مجموعی 12‘ ارب ڈالر سے بھی زائد کے بیل آؤٹ پیکیجز کے ذریعے قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک مضبوط سہارا میسر آگیا اس صورتحال میں عوام نے تو یہی توقعات باندھی تھیں کہ چین اور برادر مسلم ممالک کی بھرپور معاونت حاصل ہونے کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی قطعاً مجبوری لاحق نہیں ہوگی مگر وزیر خزانہ اسدعمر عوام کو آئی ایم ایف کے ساتھ اچھے معاہدے کی نوید سنارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو تو بہرصورت اپنے قرض کی مع سود وصولی ہی سے غرض ہوتی ہے جس کے لیے وہ مقروض ملک پر ایسی ناروا شرائط عائد کرتا ہے کہ ان پر عمل درآمد کرتے کرتے ملک کی خودمختاری تک داؤ پر لگادی جاتی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط پر عمل درآمد سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام سسکتے کراہتے عملاً زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔
اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا کہ برادر عرب ممالک اور چین سے اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج ملنے کے باوجود حکومت کو نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی کیوں مجبوری لاحق ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اب مہنگائی‘ بے روزگاری کے بے رحم پاٹوں میں پسنے والے مفلوک الحال عوام کی کیا درگت بنے گی‘ تبدیلی کہاں گئی عوام کے لیے آج عملاً تنگ آمد بجنگ آمد والے حالات بن رہے ہیں حکومت کو عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کا ادراک اور ان مسائل میں انہیں ریلیف دینے کی کوئی ٹھوس پالیسی وضع کرنی چاہیے اور عوام کے صبر کا مزید امتحان لینے سے حکومت کو گریز کرنا چاہیے۔ گیس صارفین ابھی تک گیس کے بلوں کو نہیں بھولے ہیں یہ اضافی بل 2016ء سے بھیجے جارہے ہیں اور اضافی چارج سے 32 لاکھ صارفین اووربلنگ سے متاثر ہوئے ہیں غلط پالیسیوں‘ ناقص ترجیحات کے باعث ہی قومی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پائی اور اقتصادی ترقی ایک ڈراؤنا خواب بنی ہوئی ہے اس وقت پی ٹی آئی کے اقتدار کے آٹھ ماہ پورے ہونے کے قریب ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کی ترجیحات کا تعین کرکے حکومتی گورننس اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے حکومت کے ساتھ عوام کی توقعات مزید بڑھائیں تاہم حکومت فی الوقت ان توقعات پر پوری نہیں اترسکی۔ اس کے برعکس حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی‘ دو ذیلی میزانیوں اور بجلی‘ گیس‘ پانی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ ہونے کے باعث عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید بڑھے ہیں جس کے باعث عوام میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔