کسی کو چھوڑنا نہیں ’’پلی بارگیننگ‘‘ تک

305

۔2008 میں عام انتخابات کروا کر سابق صدر پرویز مشرف نے ملک میں مکمل جمہوریت بحال کی تو پاکستان پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ نواز کی حکومتیں اقتدار میں آکر ملک پر مسلط رہیں۔ ان کے اقتدار پر قابض ہونے کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی فائدہ ہوا نہ جمہور کو البتہ فوائد دونوں جماعتوں کے چھوٹے بڑے رہنماؤں تک واضح طور پر نظر آئے۔ شاید ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی موت سے قبل کسی وقت یہ کہا تھا کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ یہ انتقام کس سے تھا اس کی وضاحت بے نظیر بھٹو کے حوالے سے سامنے نہیں آسکی تاہم لوگوں نے دیکھا کہ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی نے بعدازاں 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ نواز کی حکومتوں نے ملک و قوم کے ساتھ جمہوریت کے نام پر ’’مذاق‘‘ کرکے عوام کے ساتھ انتقام ہی تو لیا تھا۔ نتیجے میں قوم نے بھی ان دونوں جماعتوں کے ساتھ انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لے آئے۔ یہ اور بات ہے کہ عمران خان کی حکومت پر ’’خلائی مخلوق‘‘ یا اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ’’سلیکٹڈ‘‘ حکومت کا الزام عائد کردیا گیا۔ شاید یہی الزام ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا اظہار ہے۔
2008 تا 2013 جو کچھ بھی چلتا رہا اس میں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار بھی عیاں ہوا۔ 2008 تا 13 مسلم لیگ نواز اور 2013 تا 18 پیپلز پارٹی نے دوستانہ اپوزیشن کی ’’بیٹنگ‘‘ کی۔ نتیجے میں دونوں جمہوری ادوار مکمل ہوسکے اور ملک میں جمہوری تسلسل کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ مگر جب سے ملک کی یہ دونوں جماعتیں اقتدار سے باہر ہیں اور اصل حقیقی جمہوریت کا کردار نظر بھی آنے لگا ہے تو یہ دونوں جماعتیں ’’پکے دوست‘‘ دکھائی دینے لگے ہیں۔ بلکہ دوست کا دشمن، دونوں جماعتوں کا دشمن ظاہر ہونے لگا۔ مطلب اب تحریک انصاف، دونوں جماعتوں کی دشمن پارٹی بن چکی ہے۔ مزے ہیں تو ان جماعتوں کے ہیں جو ناصرف آمریت بلکہ جمہوریت کے باغات کا بھی حصہ رہے اور خوب ’’نظریاتی‘‘ سیاست کرتے رہے۔ اب کسی کا نظریہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ آج مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کسی قیدی کی طرح بطور پارٹی پھڑ پھڑا رہی ہیں وہ بھی اس لیے کہ وہ جمہوری عمل سے گھبرا کر اس سے دور بھاگنا چاہتی ہیں۔ وہ ایسی جمہوریت کا حصہ ہی نہیں بننا چاہتیں جس میں عوام کا فائدہ اور خواص کا نقصان ہو بلکہ خواص کی گرفت ہو۔ مسلم نواز اور پیپلز پارٹی جمہوریت کی دعویدار ہونے کے لیے جو کچھ کررہی ہیں اس سے عام لوگوں کا دور دور کا واسطہ نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں ’’ابو بچاؤ تحریک‘‘ چلا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اس تحریک کو ٹرین مارچ کے طور پر چلا رہے ہیں مگر
اسے ٹرین مارچ نہیں مان رہیں۔ مریم نواز اپنے والد میاں محمد نواز شریف کو باہر لے جانے کے لیے جدوجہد کررہی تھیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی نظر آرہی ہیں۔ مجرم نواز شریف جیل سے تو باہر آ چکے لیکن ابھی تک ملک سے باہر جانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بلاول زرداری اور ان کے ابو آصف زرداری کو چوں کہ خدشات ہیں کہ وہ کسی بھی وقت ’’اندر‘‘ ہوسکتے ہیں اس لیے وہ بھی ملک سے باہر جانے کے لیے عوامی ہجوم کے کاندھوں پر بیٹھ کر اسی کوشش میں مصروف ہیں۔ دلچسپ امر یہ کہ یہ دونوں ہی اسے ’’جمہوریت کے لیے جدوجہد کا نام دے رہے ہیں‘‘۔ اس جدوجہد میں ان لیڈرز کے ذاتی مفادات کی تکمیل ’’جمہوریت کی کامیابی‘‘ کہلائے گی۔ جبکہ جلسے جلسوں میں دوڑنے بھاگنے والوں کو 2000 ہزار روپے کے بجائے دو سو روپے بھی ملنا مشکل نظر آتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’لوگوں کو دو ہزار روپے فی کس دینے کا وعدہ کرکے جلسوں میں بلانے کے بعد دو سو روپے دینا بھی کرپشن ہے‘‘۔ خیال ہے کہ عمران خان نے یہ بات بھی غریب عوام کے مفادات میں کہی ہے۔ اپنی جمہوری حکومت کو چلانے کے لیے عمران خان کو بھی کچھ مجبوریوں کا سامنا ہے۔ ان مجبوریوں میں کراچی کے دورے کے دوران 130 ایکڑ رقبے پر مشتمل باغ ابن قاسم کی ازسر نو تزئین و آرائش کے بعد اس کی افتتاحی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرنا اور میئر کراچی وسیم اختر کو خراج تحسین پیش کرنا بھی شامل ہے۔ عمران خان ایسا کرنا یقیناًان کی سیاسی مجبوری تھی کیوں کہ وہ ایسا نہ کرتے تو حکومت میں شامل متحدہ قومی موومنٹ ناراض ہوجاتی۔ ویسے بھی متحدہ کو اپنی ساتھی حکومتی جماعتوں سے ناراضی ہونے کا وسیع تجربہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے باغ ابن قاسم کا افتتاح کرکے سیاسی دانش مندی کا ثبوت دیا۔ لیکن دراصل ایسا کرکے وسیم اختر کے خلاف جاری نیب کی تحقیقات سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔ ویسے بھی وہ ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب آزادانہ کام کرتا ہے۔ وہ وزیراعظم کے ماتحت نہیں ہیں۔ اب اگر کوئی خوش فہمی کا شکار ہو کہ نیب اب کے ایم سی اور اس کے میئر کے خلاف جاری تحقیقات میں ہلکا ہاتھ رکھے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ خیال ہے کہ جلد ہی نیب کی تمام کارروائیوں میں تیزی آئے گی اور ’’پلی بارگیننگ‘‘ کے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں موجودگی کے دوران اس بات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں تو کیا کہ ’’نواز، زرداری قوم کا پیسہ واپس کردیں تو چھوڑ دیں گے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں کی جائے گی اس وقت تک کسی کو نہیں ’’چھوڑا‘‘ جائے گا۔ اب عمران خان کی اس بات کو ’’این آر او‘‘ دینے سے جوڑا جائے یا کچھ بھی کہا جائے، بات تو ہے ’’فائنل‘‘ بالکل اسی طرح جیسے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کو عدالت کے حکم پر 460 ارب روپے کی ادائیگی پر ریفرنس داخل کیے جانے سے قبل چھوٹ دی جارہی ہے۔