دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہاں صرف عدالت ہوتی ہے خواہ حکومت پر کوئی بھی متمکن ہو۔ ہر طرز حکومت میں ایک ہی عدالت ہوتی ہے اس لیے کہ ہر ملک ایک آئین رکھتا ہے خواہ وہ تحریری ہو یا غیر تحریری، اسی آئین اور طے شدہ قوانین کے تحت عدالتوں کا دائرہ اختیار وضع کیا جاتا ہے اور اسی دائرہ اختیار کے تحت عدالتیں فیصلے سنایا کرتی ہیں۔ انسانوں کے تراشیدہ قوانین پتھر کی لکیر کی طرح ہو ہی نہیں سکتے کیوں کہ ہر آنے والے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ان میں تبدیلیاں نہ گزیر ہوجاتی ہیں لیکن اس کا مطلب کبھی یہ نہیں ہوتا کہ جب تک وضع کردہ کوئی ضابطہ بدل نہ دیا جائے اس وقت تک قانون ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتا ہے بلکہ جو ضابطے اور قوانین وضع ہو چکے ہوتے ہیں ان کے تحت جو بھی کسی جرم کی سزا بنتی ہے وہ مجرم کو دے دی جاتی ہے اور کسی نئے مجرم کے لیے اگر عدالت کی کسی سفارش کے مطابق قوانین میں کوئی ترمیم ہو چکی ہوتی ہے تو ترمیم کیے جانے کے بعد جو بھی ضابطہ بنادیا جاتا ہے، مجرم کو اس کے مطابق سزا سے گزرنا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں عام عدالتوں کے موجود ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کا ہونا جزولاینفک سمجھا جاتا ہے۔ جواز یہ دیا جاتا ہے کہ کیوں کہ ہماری عام عدالتوں کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک جانب تو مجرم کے جرم کو ثابت کرنا ہی جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے اور اگر کسی نہ کسی طرح کسی کے خلاف مضبوط شواہد جمع بھی کرلیے جائیں تب بھی کسی کو اس کے انجام تک پہنچانے میں کئی ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔ مقدمات کی طوالت کی وجہ سے مجرم کو اپنے بچاؤ کا موقع مل جاتا ہے جس کی وجہ سے جرم ختم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
کچھ منطقیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم جیسے کم علموں اور کوتاہ بینوں کی فہم و فراست سے باہر ہیں جن میں سے ایک منطق یہی ہے جس کو مجھ جیسا کم عقل پاکستانی آج تک سمجھنے سے محروم ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر اس بات کو یوں لے لیا جائے کہ اگر فوجی عدالتیں بھی کسی کے جرم کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجائیں، مجرموں پر یا تو جرم ثابت ہی نہ ہوسکے یا پھر کسی مجرم کو فوجی عدالت میں پیش کیے جانے سے کہیں قبل دوسرے جہان کے سفر پر روانہ کردیا جائے تو کیا کوئی ایسی عدالت بھی بنانی پڑ جائے گی جو پاکستان سے باہر کسی اور ملک کی ہوگی؟۔ کسی بھی مجرم کو اس وقت تک سزا کا حکم دیا ہی نہیں جاسکتا جب تک اس کے جرم کو اس طرح ثابت نہ کردیا جائے کہ خود مجرم کے پاس اس کی صفائی میں کہنے کو کچھ نہ رہ جائے۔ انصاف کہتے ہی اُسے ہیں جس میں مجرم کو سزا سنانے سے قبل اس بات پر بہر صورت قائل کر لیا جائے کہ جس جرم پر اسے سزا سنائی جارہی ہے وہ جرم اس سے ہی سرزد ہوا ہے۔ سزا کسی کے لیے بھی کوئی خوش خبری نہیں ہوا کرتی لیکن جس کو سزا دی جارہی ہوتی ہے اسے بہر حال اپنے جرم کو قبول کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی عدالتوں میں کسی کو سزا کا حکم مجرم کا جرم ثابت کیے بغیر دیا جاتا ہے؟۔ یقیناًایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ مجرم کو یہ حق ضرور دیا جاتا ہوگا کہ وہ اپنی صفائی میں اگر کچھ دلائل رکھتا ہے تو کھل کر اپنے حق میں بولے۔ سزا تو اس وقت سنائی جاتی ہوگی جب کہنے کو کچھ بچتا ہی نہ ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر فوجی عدالت میں مجرم کو تمام تر ثبوت و شواہد کے بعد ہی سزا دی جاتی ہے تو وہی ثبوت و شواہد عام عدالت میں پیش کرکے کسی مجرم کو اس کے انجام تک کیوں نہیں پہنچایا جاسکتا جبکہ عام عدالتوں میں بھی وہی ادارے تحقیقات کیا کرتے ہیں جو فوجی عدالتوں میں ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ہر جی آئی ٹی ایسے ہی اداروں کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے لیکن جب عام عدالتیں ان رپورٹوں کا جائزہ لیتی ہیں تو عدالتوں کو ان کی تحقیقات میں بہت سے نقائص نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے ججز اس قسم کی کسی بھی رپورٹ کو حتمی قرار نہیں دے پاتے۔ اگر کسی جے آئی ٹی میں کوئی بات وضاحت طلب ہو تو انصاف یہی ہے کہ مزید تحقیق کی جائے۔ یہی مزید تحقیق فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عام عدالتیں غلط ہیں جو انصاف کو اس کے پورے حق کے ساتھ پرکھیں یا پھر وہ فوجی عدالتیں جو خود ہی ہر معاملے کی تحقیق کرتی ہوں اور پھر خود ہی فیصلے بھی سناتی ہوں۔ یہ ایک بہت باریک اور غور طلب مسئلہ ہے جس پر سوچ بچار کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
عام عدالتوں کے ہوتے ہوئے کسی اور عدالت کی کا ہونا کسی بھی لحاظ سے کوئی مثبت بات نہیں اس لیے کہ یہ عدالتوں پر ایک مقتدر ادارے کا عدم اعتماد ہے بلکہ اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو یہ ملک کے آئین و قانون پر بھی عدم اعتماد ہے جس سے ’’دو حکومتی‘‘ تصور ابھرتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ عام عدالتوں سے مجرم بری ہوجاتے ہیں تو ان اداروں کی گرفت کی جائے جو مجرموں کے خلاف ثبوت فرام کرنے میں ناکام ہیں۔ ملک میں بڑے بڑے خفیہ ادارے ہیں جن پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ ان کا کام ہی ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے اگر وہ فوجی عدالت میں پورے ثبوت پیش کر سکتے ہیں تو عام عدالت میں کیوں پیش نہیں کر سکتے؟۔
ایک خبر کے مطابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں پر اپوزیشن کے تحفظات دور کیے جائیں گے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے جو قوم
کے عزم کی آئینہ دار اور تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ دستاویز ہے۔ یہ خبر خود فوجی عدالتوں پر عدم تحفظ کی جانب اشارہ کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان عدالتوں کے فیصلے اس حد تک اطمینان بخش نہیں جس پر پاکستان میں تشویش نہ پائی جاتی ہو۔ ایک بات اور بھی غور طلب ہے کہ جب ان عدالتوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا جارہا تھا اس وقت بھی اس بات پر زور تھا کہ کوئی ’’ٹائم فریم‘‘ مقرر کیا جائے۔ ہر بار، بار بار کی توسیع خود اس جانب اشارہ ہے کہ تمام تر قدرت و صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی یہ عدالتیں اپنا ’’ٹائم فریم‘‘ دینے میں تاحال ناکام ہیں۔ اگر اتنی قدرت والا ادارہ بھی کسی کام کا حتمی وقت نہیں دے سکتا تو عام عدالتوں میں فیصلوں کی طوالت پر تنقید کسی بھی صورت جائز نہیں۔ نیز یہ کہ آخر نیشنل ایکشن پلان کی بھی کوئی مقررہ مدت ہونا ضروری ہے یا نہیں؟۔ فوجی عدالتیں ہوں یا نیشنل ایکشن پلان، کیا یہ ہمیشہ کے لیے بنادیے جائیں؟۔ اگر ایسا ہی ضروری ہے تب بھی اس کے لیے عارضی نہیں مستقل قانون سازی کی ضرورت ہے۔ توسیع پر توسیع کسی بات کا حل نہیں۔ آخر میں جو بات میں کہنا چاہوں گا اس کو بیان کرنا ہماری ریاست میں بہت سنگین جرم سہی لیکن جو بات سچ ہو اسے نہ کہنا اس سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ آخر فوجی عدالتوں کی فوج کو ضرورت ہی کیا ہے؟۔ جس ملک میں جس کو جب چاہے کوئی جرم بتائے بغیر اٹھایا جا سکتا ہو۔ برس ہا برس ’’لاپتا‘‘ رکھا جاسکتا ہو۔ اس پر ہر قسم کا تشدد کیا جاسکتا ہو۔ آسمان سے زمین پر پٹخا جاسکتا ہو۔ معذور کیا جاسکتا ہو۔ شکل و صورت کو مسخ کیا جاسکتا ہو۔ اور جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاسکتا ہو وہاں کسی عدالت کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ جن کو مجرم کہہ کر پکڑ نے کے بعد مارا بھی جاسکتا ہو اور مصلحت کے پیش نظر گلے بھی لگایا جاسکتا ہو وہاں عدالتوں کا قیام ایک سنگین مذاق کے سوا کیا اور بھی کچھ ہے؟۔