پاکستان کے خلاف عالمی استعمار کا ایجنڈا

410

اِس وقت کالعدم تنظیموں کا مسئلہ ہمارے حکمرانوں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے، وہ یہ وضاحت اور صفائی پیش کرتے نہیں تھک رہے کہ دُنیا ہماری طرف کالعدم تنظیموں کے سبب اُنگلی اُٹھا رہی ہے، اب ہم انہیں کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر ایک ’’نیشنل ایکشن پروگرام‘‘ بھی ترتیب دیا گیا ہے جس میں اُن تمام ہدایات کو سمو دیا گیا ہے جو مبینہ دہشت گردی کے خلاف سرگرم عالمی اداروں نے حکومتِ پاکستان کو دی ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی اداروں نے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں اُن خیراتی اور فلاحی تنظیموں کو بھی شامل کر رکھا ہے جو پاکستان میں دُکھی انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کررہی تھیں، حکومتِ پاکستان نے اِن تنظیموں کے بارے میں عالمی اداروں کے موقف کو مسترد کرنے اور انہیں اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دینے کے بجائے ان کے موقف کو حرف بہ حروف تسلیم کرلیا ہے اور فلاحی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے لاکھوں یتیموں، بیواؤں اور غربا و مساکین کا سہارا چھین لیا ہے۔ یہ فلاحی اور خیراتی تنظیمیں اِن مستحق لوگوں کو ہر ماہ راشن فراہم کرتی تھیں، اپنی ڈسپنسریوں اور اسپتالوں میں ان کا مفت علاج معالجہ کرتی تھیں، یتیم اور غریب خاندان کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کیے جاتے تھے۔ فلاحی تنظیموں کے رضا کار زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے موقع پر مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہوتے تھے۔ اب حکومت کے ایک جاہلانہ اقدام سے یہ سارا فلاحی کام رُک گیا ہے اور حکومت نے جو ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرز پر ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی دعویدار تھی خود ہی اپنے اس دعوے کی نفی کردی ہے۔
اب آئیے کالعدم تنظیموں پر گفتگو کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں جنہیں عرفِ عام میں جہادی تنظیمیں کہا جاتا ہے، کب اور کیسے وجود میں آئیں؟ یہ ایک کھلا راز ہے جو ہر پاکستانی جانتا ہے، ہم سب اِس بات سے آگاہ ہیں کہ جب 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی اور افغان عوام اس کے خلاف میدانِ جہاد میں کود پڑے تو پاکستان نے جنرل ضیا الحق کی قیادت میں افغان عوام کا ساتھ دینے اور افغان جہاد میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ جنرل ضیا الحق جو اُس وقت پاکستان میں برسراقتدار تھے اُن کا موقف یہ تھا کہ اگر ہم نے افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ نہ روکا تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔ چناں چہ پاکستان کو سفید ریچھ کی ممکنہ جارحیت سے بچانے کے لیے افغان عوام کی ہر ممکن مدد کی گئی۔ سوویت یونین کے حملے سے بے گھر اور بے یارو مددگار افغانوں کے لیے پاکستان کی سرحدیں کھول دی گئیں اور افغان جہاد کو منظم کرنے میں آئی ایس آئی نے اہم کردار ادا کیا۔ اس موقع پر پاکستان میں بھی جہادی تنظیمیں تشکیل دی گئیں اور پاکستانی مجاہدین نے بھی اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ امریکا تو اس معرکے میں بہت بعد میں شامل ہوا جب اسے یقین ہوگیا کہ افغان مجاہدین اس کے نظریاتی حریف کو پچھاڑنے کا پورا دَم خم رکھتے ہیں۔ اس نے افغانستان میں سوویت یونین کی یقینی شکست کو بھانپتے ہوئے اپنے اسلحہ خانے اور اپنے خزانے کے منہ کھول دیے، اس کی ترغیب پر تمام عرب ممالک اور پورا یورپ افغان جہاد میں کود پڑا۔
افغانستان میں سوویت یونین کی عبرتناک شکست کے بعد جنرل ضیا الحق مقبوضہ کشمیر کو بھی جہاد کے ذریعے آزاد کرانا چاہتے تھے، ان کا موقف تھا کہ بھارت مذاکرات کے ذریعے کبھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرے گا اسے جہاد کی قوت سے زیر کرنا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب مسلح مزاحمت کے ذریعے ہی بھارت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے لیکن قبل اس کے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں جہاد کشمیر شروع ہوتا امریکا نے ان کا جہاز تباہ کروا کے انہیں ٹھکانے لگادیا۔ جنرل ضیا الحق کے بعد بھی جہادِ کشمیر کی پلاننگ جاری رہی۔ جہادی تنظیمیں تشکیل دی گئیں اور انہیں کشمیری مجاہدین کے ساتھ مل کر قابض بھارتی فوج کے خلاف جہاد کے لیے مقبوضہ علاقے میں بھیجا گیا۔ 1990ء کی دہائی کے آخر تک مجاہدین اتنی قوت حاصل کرگئے تھے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا تھا اور بھارتی تجزیہ کار اپنی حکومت کو یہ مشورہ دینے پر مجبور تھے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے باعزت واپسی کا راستہ تلاش کرے ورنہ اسے بھی سوویت یونین جیسی شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قبل اس کے کہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کسی نتیجے پر پہنچتا امریکا نے نائن الیون برپا کرکے پوری دُنیا میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کردیا۔ بھارت نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ امریکا نے کشمیر و فلسطین سمیت پوری دُنیا میں جاری مسلمانوں کی تحاریک آزادی اور جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ امریکا نے پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف کو مجبور کیا کہ وہ جہادی تنظیموں پر پابندی لگادے۔ مجاہدین کی کنٹرول لائن کے راستے نقل و حرکت کو روک دے اور جہاد فنڈ جمع کرنے کو غیر قانونی قرار دے دے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے یہ سارے کام کیے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کے تمام بَری، فضائی اور بحری وسائل امریکا کے قدموں میں ڈال دیے۔ جہادی تنظیمیں جنرل پرویز مشرف کے دور سے کالعدم چلی آرہی ہیں۔ ان کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے، اگر ان میں سے بعض تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں زیر زمین کام کررہی ہیں تو اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ وہ مقامی باشندوں کے تعاون سے قابض بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت میں مصروف ہیں اور پاکستان اس کے لیے جوابدہ نہیں ہے، لیکن عالمی استعماری قوتیں ہر معاملے میں پاکستان کو جوابدہ قرار دے رہی ہیں، ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ دُنیا میں کہیں بھی اسلام کو پنپنے کا موقع نہ دیا جائے۔ پاکستان میں چوں کہ اسلام کا زیادہ چرچا ہے اس لیے پاکستان ان طاقتوں کا زیادہ ہدف بنا ہوا ہے۔ امریکی کانگریس میں جماعت اسلامی پاکستان پر پابندی لگانے کی قرار داد پیش کی گئی ہے، کیا جماعت اسلامی کوئی دہشت گرد تنظیم ہے یا اس کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے ہے۔ نہیں‘ بلکہ اس قرار داد کا مقصد پاکستان میں اسلام کا راستہ روکنا اور سیکولرازم کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ہمارے حکمران بار بار یہ صفائی پیش کررہے ہیں کہ ان کا جیش محمد یا مسعود اظہر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چین مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی قرار داد چار مرتبہ ویٹو کرچکا ہے، اب امریکا نے بھارتی خفت مٹانے کے لیے خود یہ قرار داد پیش کی ہے تو چین نے اس پر بھی منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا مسعود اظہر چینی باشندے ہیں اور وہ ان کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے، دراصل چین مولانا مسعود اظہر کی آڑ میں بھارت کا دہشت گردی کے خلاف وہ بیانیہ مسترد کررہا ہے جس کی بنیاد پر وہ علاقے پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو کم از کم چین جیسی دانشمندی کا مظاہرہ تو کرنا چاہیے، وہ تو ہر معاملے میں بھارت کو صفائی پیش کرنے میں لگے ہیں۔ پلواما حملہ خود بھارت کا اپنا منصوبہ تھا جس کی گواہی بھارتی باشندوں نے برسر عام دی ہے لیکن ہمارے ہاں بھارتی ڈوزیئر کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا اور وسیع پیمانے پر کارروائی کی گئی۔ حافظ سعید بھارت کی نہایت ناپسندیدہ شخصیت ہیں، انہیں اپنی مسجد میں خطبہ جمعہ دینے سے روک دیا گیا۔ قارئین جسارت کے لیے یہ خبر بھی باعث تشویش ہے کہ چکوال میں جماعت اسلامی کو درس قرآن کی اجازت نہیں دی گئی، اس میں شک نہیں کہ پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور آئی ایم ایف کے حصار میں آیا ہوا ہے، یہ دونوں ادارے مسلمانوں کے خلاف عالمی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، اگر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے سوجھ بوجھ سے کام نہ لیا تو ہم بہت کچھ کھو دیں گے۔