مذہبی سیاحت حقیقت یا افسانہ؟

365

 

پاکستان کے محکمہ داخلہ نے غیر ملکی سیاحوں پر این او سی کی پابندی ختم کر دی ہے۔ محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سیاح پورے ملک میں آزادانہ نقل وحرکت کرسکیں گے سوائے ایسے علاقوں کے جہاں ممنوع علاقے کا بورڈ آویزاں ہوگا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق غیر ملکی سیاح آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا دورہ بھی کر سکیں گے مگر ان پر کنٹرول لائن سے پانچ میل جبکہ سیاچن میں دس میل دور رہنے کی پابندی ہوگی۔ اسی طرح سیاح پاک چین اور پاک افغان بارڈر سے دس میل دور رہنے کے پابند ہوں گے۔ اس سے پہلے یہ خبریں بھی پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں سامنے آئی تھیں کہ حکومت پاکستان کرتار پورہ راہداری طرز پر ہی کشمیری پنڈتوں کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کی خاطر انہیں آزادکشمیر وادی نیلم میں ان کے متبرک ترین مقام شاردہ تک راہداری فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ خود وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے تسلیم کیا ہے کہ کرتار پورہ راہداری کے بعد شاردہ راہداری بھی کھل سکتی ہے مگر اس کے لیے پہلے بھارت کو کنٹرول لائن پر امن قائم کرنا ہوگا۔
وادی کشمیر کے ہندو خود کو سب سے برتر برہمن نسل ہندو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ثقافت، تہذیب اور زبان کے لحاظ سے باقی ہندو مت سے منفرد بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہی اصل کشمیری النسل باشندے ہیں باقی لوگ مختلف اوقات میں یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔ ہندوستان کا مشہور زمانہ نہرو خاندان اور علامہ اقبال کا خاندان کشمیری پنڈتوں ہی کی نسل سے ہے۔ شاردہ کشمیری پنڈتوں کے لیے خطے میں تین متبرک مقامات میں شامل ہے۔ انہی میں ایک امرناتھ غار بھی ہے جہاں ہر سال بھارت کے طول وعرض اور دیگر ممالک سے ہندو لاکھوں کی تعداد میں پہنچ کر مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔ کشمیر ی پنڈت امرناتھ کی طرح شاردہ کو ایک ہندو دیوی سے منسوب کرکے اسے اپنے مذہب کا آغاز قرار دیتے ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ’’مذہبی سیاحت‘‘ کا ذکرکرتے چلے آرہے ہیں۔ کرتار پورہ راہداری کھولنے میں بھارت سے زیادہ پاکستان کی خواہش کا دخل ہے۔ اس سے پاکستان نے بھارت کی سکھ اقلیت کی طرف ایک شاخِ زیتون اُچھال دی ہے۔ سکھ یوں بھی بھارت کے بدلتے ہوئے مزاج اور شناخت میں زیادہ خوش نہیں۔ پاکستان نے 1947 کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے اس کمیونٹی کی طرف برسوں پہلے دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا کر ایک درست اور دیر پا اثرات کا حامل فیصلہ کیا تھا۔ چودھری ظہور الٰہی جیسے پاکستانی سکھ یاتریوں کا شایان شان استقبال کرکے ماضی کی یادوں کو ذہنوں سے محوکرنے کی کوشش کرکے ایک اچھی کوشش کررہے تھے۔ سکھوں کے گورداروں کی اطمینان بخش دیکھ بھال نے سکھوں کو پاکستان کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب کرتار پورہ راہداری کھولنے والا پاکستان سکھوں کا ہیرو ہے اور جو اس راہداری کو بند کرنے کی کوشش کرے گا وہ ان کا ولن ہوگا خواہ وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو؟۔ کچھ یہی معاملہ کشمیری پنڈتوں کا بھی ہے۔ وہ ماضی کی تلخ یادوں کا حصہ تو نہیں رہے کیوں کہ یہ مجموعی طور پر امن پسند اور اپنے کلچر زبان اور ثقافت کی برتری اور پھیلاؤ میں گم طبقہ رہا ہے مگر اسی کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور وادی کشمیر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے باعث ان کی اکثریت بی جے پی جیسی سخت گیر ہندو جماعتوں کے قریب چلی گئی ہے۔ ان کی نسل کو نقل مکانی کے بعد ترقی کے زیادہ بہتر مواقع میسر آئے ہیں۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو ان دنوں ہندؤں کی گائے پرستی اور انسان دشمنی اور پاکستان کے خلاف مودی کی مہم کے بڑے ناقدین میں شمار ہو رہے ہیں اسی پنڈت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح شاردہ راہداری کی بحال دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کشمیر پنڈت کمیونٹی کے لیے کرتار پورہ راہداری کی طرح اور اتنی ہی اہمیت کی حامل شاخ زیتون ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان بلاشبہ قدیم اور جدید تہذیبوں کا حسین سنگم ہے۔ یہاں موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں بھی وقت کی راکھ تلے دبی چنگاریوں کی صورت موجود ہیں۔ ماضی کے مذہبی مراکز اور علامتیں یہاں بدھ مت، سکھ اور ہندو دھرم کے پیروکاروں کے لیے باعث کشش ہیں۔ صرف یہی نہیں دنیا بھر میں صوفی ازم سے دلچسپی رکھنے والے مسلمانوں کے لیے بھی لاہور سے پاک پتن اور ملتان تک بزرگان دین کی خانقاہیں اور مزارات بھی روحانی تسکین کا باعث ہیں۔ بھارت میں جو حیثیت اجمیر شریف کی ہے وہی حیثیت پاکستان میں مزار علی ہجویری ؒ کو حاصل ہے۔ ضرورت فقط منصوبہ بندی اور مناسب مارکیٹنگ کی ہے، سہولتوں کی فراہمی کی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ خود اعتمادی کی ہے۔ خود اعتمادی کی کمی تھی کہ ہم نے مدتوں تک پلوں پر’’پُل کی تصویر لینا منع ہے‘‘۔ کے بورڈ سجائے اور سینے سے لگائے رکھے۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے اپنے کلچر کے خراب ہونے اور اخلاقیات پر بُرا اثر پڑنے کے خوف کو بھی ہم نے مدتوں حرز جاں بنائے رکھا۔ اس کا حل سیاحوں پر پابندی نہیں بلکہ انہیں کچھ حدود قیود میں رکھنے ہی میں مضمر تھا۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے پیدا ہونے والے سیکورٹی حالات کے بعد ہماری خود اعتمادی مزید کم ہوگئی اور خوف کچھ اور بڑھ کر رہ گیا۔ یہ فطری بھی تھا۔ اب سیکورٹی صورت حال میں نمایاں بہتری آگئی ہے۔ ریاست نے نادرا اور ویزے پاسپورٹ کے معاملات پر دوبارہ گرفت قائم کر لی ہے تو اس طرح کے انقلابی فیصلے ہونے لگے ہیں۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد سے بلاشبہ پاکستانی معیشت کو سہارا ملے گا۔ اس لیے حکومت کو ان فیصلوں پر سختی سے کابند رہنا چاہیے۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ ہمارا گرد وپیش انقلابات سے آشنا ہورہا ہے۔ ہم خوف، احساس کمتری اور خدشات کو جھٹک کر زمانے کے قدم سے قدم ملاکر نہ چلے تو یا تو اشہبِ زمانہ کے سموں تلے آکر کچلے جائیں گے یا اس کے سموں سے اُٹھنے والی گرد کو حیرت اور حسرت کے ساتھ دیکھنے کے لیے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ شاعر نے اسی جانب کیا خوب اشارہ کیا ہے کہ
تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو
پاؤں رکتے نہیں زمانے کے