ذوالفقاربھٹو کی برسی میں عمران خان اور نیب کا ذکر غالب رہا 

121

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور آصف زرداری نے اپنی تقاریر میں ” زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ” کے نعروں کی گونج میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ کا ذکر نہ کرکے یقیناًپارٹی کے جیالوں اور ہزاروں کارکنوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہوگا یا نہیں لیکن سب ہی نے یہ نوٹ کیا ہوگا کہ بھٹو کی برسی کو بھی حکومت اور جاری احتسابی عمل کی مخالفت کرکے ” کیش ” کرایا گیا۔ اپنے نانا کی برسی پر خطاب کرتے ہوئے بلاول زرداری نے سوال کیا کہ ” کیا شہید بھٹو ، اکبر بگٹی، اصغر خان کیس ،مشرف کا مقدمہ، لاپتاافراد کیسز اور 12مئی کے مقدمات سست روی کا شکار نہیں ؟ “۔ مگر ان الفاظ کے ساتھ انہوں نے اپنی ماں بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کاذکر ہی گول کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کو بھی موجودہ سیاسی معاملات خصوصاً نیب کی کارروائیوں سے ملا کر رہنماؤں نے بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کا ذکر کرنے سے زیادہ وزیر اعظم عمران خان اور نیب کی کارروائیوں کا کیا جس سے ایسا تاثر ملتا رہا کہ پیپلز پارٹی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ نیب کے وہ مقدمات ہیں جس میں آصف علی زرداری ، وہ ( بلاول ) و دیگر رہنما ملوث ہیں اور ان میں ان کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ آزادانہ اظہار رائے دینے والوں کا کہنا تھا کہ ” بھٹو کی برسی کو بھی حکومت اور نیب کے خلاف طاقت کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ بلاول زرداری نے بھٹو کی برسی کے حوالے سے کم اور عمران خان کے خلاف زیادہ جوشیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” عمران خان میرے گھوٹکی آکر کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم ختم ہونا چاہیے ، 18 ویں ترمیم ختم کرو میں ایک لات مار کر آپ کی حکومت گرادوں گا ” زرداری نے اس موقع کا فائدہ اٹھاکر کہا کہ ” جیالوں تیار ہوجاؤ اسلام آباد چلنے کا وقت آگیا ہے۔ بھٹو کی 40 ویں برسی کے موقع پر آج بھی بھٹو کے چاہنے والے دو حصوں میں تقسیم نظر آرہے تھے ” بھٹو زندہ ہے ” کے نعرے کی بازگشت میں یہ ایک نہیں ہو پارہے تھے مگر دونوں طرف ” بھٹوز ” کی کمی عیاں تھی۔