ملزم، ملزم ہوتا ہے!

227

عدالت عظمیٰ کی کارکردگی اس حقیقت کی غماض ہے کہ عدلیہ کو قوم سے زیادہ حکمرانوں کے مقدمات کی سماعت میں دلچسپی ہے اور اس دلچسپی کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہے۔ چھوٹی بڑی عدالتوں میں دیوانی اور فوجداری مقدمات کی تاخیر نے سائلین کو ذہنی مریض بنادیا ہے مگر نظام عدل کے بااثر، بااختیار اور عدل پروری کے دعوے داروں کو اس کی پروا نہیں، وہ صرف اور صرف سیاسی مقدمات کے جھمیلوں میں اپنی ذہنی اور عملی قابلیت کو بروئے کار لانے میں مصروف ہیں۔ نسل در نسل عدالتوں کے دھکے کھانے والوں کے بارے میں کسی چیف جسٹس پاکستان کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ جج صاحبان سے استفسار کرتے کہ سائلین کو ذہنی اذیت کیوں دی جارہی ہے؟۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کا یہ استفسار غور طلب ہی نہیں حیران کن بھی ہے کہ حکومت غداری کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی واپسی کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے؟۔ چیف صاحب کے ریمارکس کے مطابق حکومت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ حالاں کہ پرویز مشرف کو واپس لانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ چیف صاحب نے اٹارنی جنرل کو ہدایت فرمائی ہے کہ حکومت نے پرویز مشرف کو واپس لانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں عدالت کے علم میں لائے جائیں۔ سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی کو کیسے بڑھانا ہے اس کا تعین آئندہ سماعت کے دوران کیا جائے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ پیشی کا مقصد مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے اور اس عمل میں تسلسل برقرار رکھا جائے تو انصاف کی فراہمی ایک یقینی امر بن جاتی ہے، مگر ہمارے عدالتی نظام میں پیشی کا مقصد سائلین کو ذہنی اذیت دینا ہوتا ہے، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ مسند انصاف پر براجمان شخص ایذا رسانی سے لطف اندوز ہونا ہی اپنی ذمے داری اور اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔
واجب الاحترام چیف جسٹس پاکستان نے سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے کے حوالے سے جو استفسار اٹارنی جنرل سے کیا ہے وہ سوال تو انہیں ایذا رسانی کے ماہر جج صاحبان سے کرنا چاہیے، ہمیں یقین ہے جس دن عدالت عظمیٰ سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان سے مقدمات میں تاخیر کے بارے میں استفسار کا وتیرا اختیار کرلے گی انصاف کی بروقت فراہمی کے خواب کو تعبیر مل جائے گی۔ عدالت عظمیٰ نے سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کے فیصلے میں تاخیر کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چیف صاحب! یہی ہدایت ماتحت عدالتوں کو بھی کرتے۔ انہوں نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ نئی خصوصی عدالت تشکیل دی جاچکی ہے تو پھر۔۔۔ پرویز مشرف کا ٹرائل کیوں تاخیر کے دائرے میں بند کردیا گیا ہے؟ حکومت پہلے یہ تاثر دیتی رہی کہ ای سی ایل سے پرویز مشرف کا نام عدالت کے حکم سے نکالا گیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنا یا نکالنا حکومت کا کام ہے۔
چیف صاحب! کا فرمان ہے کہ اگر پرویز مشرف 342 کے تحت بیان دینے سے بھی گریزاں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بیان دینے سے انکاری ہیں۔ چیف صاحب نے دوران سماعت یہ استفسار بھی کیا کہ عدالت ملزم کے ہاتھوں یرغمال ہوسکتی ہے؟۔ اگر ملزم پیش نہ ہو تو کیا عدالت بے بس ہوجاتی ہے۔ چیف صاحب کے فرمان کے مطابق ملزم چھوٹا بڑا نہیں صرف ملزم ہوتا ہے، قانون سب کے لیے ہے۔ افسوس زمینی حقائق اس کی تائید کرنے سے معذور ہیں۔ عذیر بلوچ، آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے مقدمات ہمیں منہ چڑا رہے ہیں، کیوں کہ وطن عزیز میں کوئی عزیز مصر ہے اور کوئی عذیر بلوچ ہے۔