یوں تو مایوسی کفر ہے اور انسان کو ہر حال میں پُراُمید رہنا چاہیے اور اچھے وقتوں کی اور بہتری کی توقع رکھنی چاہیے لیکن پاکستانی معیشت ہر آنے والے دن کے ساتھ جس طرح پستیوں اور گہرائیوں میں ڈوبتی جارہی ہے اس کا سوچ کر ہر محب وطن پاکستانی خوف اور فکر میں اس طرح گِھر جاتا ہے کہ ذہنی توازن قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، جب ملک میں معاشی ترقی کی شرح 5.8 سے گھٹ کر 3.9 فی صد رہ جائے اور 2020ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک مزید گرنے کی خبر سنا رہا ہو، مہنگائی کی شرح 3.5 فی صد سے بڑھ کر 9.5 فی صد تک پہنچ جائے اور ادویات کی قیمتوں میں 200 اور 300 فی صد اضافہ ہوجائے، پٹرول سو روپے لٹر تک پہنچ جائے اور گیس کی قیمتوں میں 140 فی صد تک اضافے کی تیاری کی جارہی ہو۔ گزشتہ حکومتوں کو قرضوں پر لعن طعن کرنے والی حکومت نے 3300 ارب روپے کے اسٹیٹ بینک سے قرضے لے لیے ہوں، ڈالر کے ریٹ 105 روپے سے بڑھ کر 143 روپے تک پہنچ گئے ہوں تو کیسے معیشت کی بہتری، غربت میں کمی، آمدنیوں اور روزگار میں اضافے، معاشی خوشحالی اور آسودگی کی اُمید باندھی جاسکتی ہے۔
موجودہ حکومت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے عوامی مقبولیت حاصل کرنے اور الیکشن جیتنے کے لیے جن جن اقدامات اور اصلاحات کی مخالفت کی تھی اُن ہی تمام کاموں کا دھڑلے سے اعلان بھی ہورہا ہے اور جواز بھی پیش کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو خودکشی کے برابر قرار دیا گیا اب اسد عمر اسی قرضے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کو کرپٹ کہا گیا اور اعلان کیا گیا کہ ہم اقتدار میں آکر پٹرول کی قیمت 50 روپے فی لٹر کردیں گے۔ اس وقت پٹرول سو روپے فی لٹر تک پہنچ گیا ہے۔ بڑے زور و شور سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہم ٹیکس کی وصولی دگنا کردیں گے جب کہ اب تک کی ٹیکس وصولی میں 330 ارب روپے کا شارٹ فال ہے اُوپر سے آئی ایم ایف کی تلوار سروں پر ہے کہ اخراجات کم کرو اور آمدنی میں اضافہ کرو۔ تو خرچے صرف وہی کم ہوں گے جو عوام کی بہتری کے لیے کیے جاتے ہیں، ملک کے اعلیٰ ترین طبقات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اب ایک اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بات ہورہی ہے اسی طرح کی ایک اسکیم جب پچھلی حکومت نے متعارف کرائی تھی تو عمران خان نے اس کی سخت مخالفت کی تھی کہ اس طرح ٹیکس چوروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اربوں روپے ٹیکس چوری کرکے جمع کیے ہیں اُن سے چند لاکھ روپے لے کر معاف کردیا گیا، اب یہی کام پی ٹی آئی کی حکومت بھی کرنے جارہی ہے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب بار بار اس قسم کی اسکیم ملک میں آتی رہیں گی تو کون ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرائے گا اور کون ٹیکس ایمانداری سے ادا کرے گا اسی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دہندگان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ زراعت، تعمیرات، تجارت اور خدمات کے شعبے ملکی معیشت میں بہت وسیع حصے کے مالک ہیں مگر ٹیکس کی ادائیگی میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے حال ہی میں ایشیائی ممالک کی معاشی صورت حال پر جو رپورٹ شائع کی ہے وہ بھی پاکستانی معیشت کی ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہے۔ معاشی ترقی کی شرح، جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں وہ رواں سال 3.9 فی صد رہے گی۔ جو اس خطے میں سب سے کم ہے۔ مہنگائی کا گراف اُوپر کی طرف جائے گا، بڑے پیمانے کی صنعت (LSM) میں ترقی کی شرح کم ہوجائے گی، زراعت و صنعت دونوں سست روی کا شکار رہیں گی، ٹیکسوں کی وصولی کم اور اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد ہی معیشت کو استحکام دلاسکتی ہیں۔حکومتی ٹیم کی بدانتظامی اور ناتجربہ کاری کا یہ حال ہے کہ پشاور کی میٹرو بس کا منصوبہ بی آر ٹی پانچ مرتبہ ڈیڈ لائن دینے کے بعد بھی شروع نہ ہوسکا اور اب نیب نے اس کے اخراجات میں کئی گنا اضافے پر تحقیقات شروع کردی ہیں اور اسی طرح لاہور کے ایک شاندار اسپتال ’’پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ‘‘ تباہی کے دہانے پر پہنچادیا گیا، جب کہ پنجاب حکومت کے اہلکاروں کی عیاشیوں کا یہ حال ہے کہ پہلے تو خود اپنی ہی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کرلیا اور اب 70 نئی گاڑیوں کا آرڈر دے دیا گیا ہے، کیا یہ ہے نیا پاکستان۔