نیند میں چلنے والے

602

ایک نئی تحقیق کے مطابق بچوں کی بڑی تعداد نیند کی حالت میں چلتی ہے۔ تحقیق کے مطابق پانچ میں سے ایک بچہ زندگی میں کبھی نہ کبھی نیند کی حالت میں چلا ہوتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر لوگوں میں بڑے ہونے تک نیند میں چلنے کی عادت ختم ہوجاتی ہے مگر کچھ لوگوں میں یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے اور وہ نیند کی حالت میں چلتے ہوئے سینڈوچز اور کھانا بناسکتے ہیں اور گاڑی چلا سکتے ہیں۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 25 مارچ 2019)
’’نئی تحقیق‘‘ بچوں کے نیند میں چلنے کے عمل کو ’’عام بات‘‘ باور کرارہی ہے۔ ’’پرانی تحقیق‘‘ یہ ہے کہ ہم نے کتابوں میں گروہوں، تنظیموں، قوموں یہاں تک کہ تہذیبوں کو نیند کے عالم میں چلتے ہوئے دیکھا ہے۔’’نئی تحقیق‘‘ کہہ رہی ہے کہ نیند میں چلنے والے سینڈوچ اور کھانا بنالیتے ہیں بلکہ گاڑی بھی چلا لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انسان نیند کی حالت میں شادیاں کرلیتے ہیں، بچے پیدا کرلیتے ہیں، کتابیں لکھ ڈالتے ہیں، جنگیں لڑ لیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نیند کی حالت میں زندہ ہیں۔ وہ اپنی نیند کو اپنے تک بھی محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی نیند کو نسل در نسل منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیند محض جسمانی یا نفسیاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی اور علمی مسئلہ بھی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا نیند میں چلنے والوں کے تشخص کے کچھ اور پہلو بھی ہیں؟۔
اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ نیند میں چلنے والے حقیقت اور فریب میں تمیز نہیں کرپاتے۔ چناں چہ وہ حقیقت کو فریب اور فریب کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ وہ اصل کو نقل اور نقل کو اصل جان کر زندگی بسر کر دیتے ہیں۔ وہ دائمی اور عارضی کے فرق سے آگاہ نہیں ہوپاتے۔ چناں چہ وہ عارضی کو دائمی خیال کرکے اسے پوری زندگی سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نیند بے شعوری کی علامت ہے اور بے شعوری کی ضد شعور ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان کی نیند اور Sleep Walking کا سب سے بڑا علاج مذہب ہے۔
اسلام بتاتا ہے کہ انسان ’’نسیان‘‘ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ سیدنا آدم ؑ اور اماں حوّا کو بتادیا گیا تھا کہ انہیں ایک پیڑ کا پھل نہیں کھانا ہے مگر وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور ان کا شعور ’’خوابیدہ‘‘ ہوگیا۔ چناں چہ شیطان انہیں بہکانے میں کامیاب ہوگیا۔ شعور نے آدم کو آدم بنایا تھا، نسیان نے انہیں جنت سے نکلوادیا۔ سیدنا آدمؑ کا شعور بیدار نہ ہوتا تو وہ توبہ کی طرف نہ جاتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مذہب کی ساری جدوجہد انسان کو نیند سے بیدار کرنے کی جدوجہد ہے۔ اس کی بے شعوری کو شعور میں ڈھالنے کی کبھی نہ ختم ہونے والی کوشش ہے۔
سلیم احمد کا ایک شعر ہے:
ٹکڑوں ٹکڑوں میں بسر کرتا ہوں عمر
لمحہ بھر کو جی اُٹھا پھر مر گیا
زیر بحث موضوع کے حوالے سے اس شعر کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
ٹکڑوں ٹکڑوں میں بسر کرتا ہوں عمر
لمحہ بھر کو جاگ اُٹھا پھر سو گیا
اکثر لوگوں کا شعور اس طرح کام کرتا ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے ’’بیدار‘‘ ہوتے ہیں اور دوسرے لمحے ان کا شعور نیند کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ کچھ لوگ توجہ کے ارتکاز کے مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ Attention Deficit کا شکار ہیں۔ یہ ایک ’’بیماری‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے اس کو ’’جدید بیماری‘‘ باور کرایا جاتا ہے۔ مگر انسانوں کی اکثریت ہزاروں سال سے توجہ کے ارتکاز سے محروم ہے یعنی Attention Deficit کا شکار ہے۔ ایک نبی آتا ہے وہ بتاتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں۔ خدا ہی ہمارا خالق ہے وہی ہمارا مالک ہے۔ اس کی طرف سے ہم آئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم دنیا میں مقیم ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ چناں چہ ہمارا خدا ہمیں جو حکم دے بجا لانا چاہیے۔ انسانوں کی بڑی تعداد کچھ عرصے تک ان باتوں کو یاد رکھتی ہے پھر بھول جاتی ہے۔ نسیان میں مبتلا ہوجاتی ہے، کفر اور شرک کے زیر اثر چلی جاتی ہے۔ چناں چہ قومیں اور تہذیبیں تک نیند میں چلنے والی بن جاتی ہیں۔
قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ دنیا متاع الغرور ہے، دھوکے کی ٹٹّی ہے۔ Smoke Screen ہے، اس کے برعکس آخرت کی زندگی اصل ہے مگر کروڑوں مسلمان دنیا کی زندگی کو اصل سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے نہیں مگر آخرت کی زندگی انہیں خواب و خیال محسوس ہوتی ہے۔ یہی نیند میں چلنے کا عمل ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے مگر کروڑوں مسلمان بکری کے اس مرے ہوئے بچے کے لیے مرے جارہے ہیں۔ اس سے لپٹ رہے ہیں، چمٹ رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اسے سر پر بٹھائے ہوئے ہیں، اسے پوج رہے ہیں۔ یہ بھی Sleep Walkers کا طرزِ عمل ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور شرکوں کا دنیا میں کوئی حصہ نہ ہوتا مگر کروڑوں مسلمان کافروں اور مشرکوں کی دنیا پر رال ٹپکا رہے ہیں۔ اسے Idealize کررہے ہیں۔ اس کے حصول کے لیے پوری زندگی کھپا رہے ہیں۔ یہ بھی نیند میں چلنے والوں کا طرزِ فکر اور طرز عمل ہے۔ اسلام کہتا ہے نفس کے تین درجے ہیں۔ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔ لوگ معصومیت سے پوچھتے ہیں نفس امارہ اور اس کی اماریت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نفس امارہ کی ہولناک ترین صورت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی نہ پہچان سکتا ہو اور اپنے بندے ہونے کے تصور سے بھی محروم ہو۔ مگر اندھی دنیا پرستی بھی اماریت کا ایک کھیل ہے اور جو شخص نفس امارہ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے وہ غلام بھی ہے اور نیند میں چلنے والا بھی۔ آزاد اور بیدار آدمی وہ ہے جس نے نفس مطمئنہ حاصل کرلیا ہو۔
آپ نے کبھی غور نہیں کیا ہوگا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی پوری شاعری نیند کی بیماری کے خلاف ایک جنگ اور نیند میں چلنے والوں کا ایک ’’علاج‘‘ ہے۔
اُٹھ کے خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختۂ شام و سحر تازہ کریں
**
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
**
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مولانا مودودی کا پورا علم کلام بے شعوری پر شعور کے غلبے کی جدوجہد اور نیند میں چلنے والوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ پوری اُمت مسلمہ بھول گئی تھی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مولانا نے پوری امت کو نسیان کے مرض سے نکالا اور آج پوری امت کہہ رہی ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ امت بھول گئی تھی کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے نہیں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ مولانا نے یہ بھولی ہوئی بات بھی مسلمانوں کو یاد دلائی۔ امت بھول گئی تھی کہ ہر عہد کے باطل کی نشاندہی اور اس کو چیلنج کرنا بھی مسلمانوں کا فرض ہے۔ مولانا نے پوری امت کو یاد دلایا کہ ہمارے زمانے کا ایک باطل کمیونزم ہے اور دوسرا باطل سرمایہ داری ہے۔ یاد آیا نظیر اکبر آبادی کو تو کوئی بھی ’’انقلابی‘‘ نہیں سمجھتا مگر انہوں نے نیند میں چلنے کے مرض کی نشاندہی کی ہے اور Sleep WalKing کے خلاف قلمی اور فکری جہاد کیا ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نظم بنجارہ نامہ کے دو بند ملاحظہ کیجیے۔
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں
مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے
دن رات بجا کر نقارہ
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر
کیا گو میں پلا سربھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر
کیا آگ دھواں اور انگارہ
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
**
تو بدھیا لادے بیل بھرے
جب پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا
یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں
جب بھالا مار گراوے گا
دھن، دولت ناتی پوتا کیا
اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
چیک ادیب میلان کنڈیرا نے ایک عمدہ بات کہی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ آمریت کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ آمریت کا ایک عذاب یہ ہے کہ وہ انسانوں کو نیند میں چلنے والا بنادیتی ہے۔ چناں چہ آمریت خواہ فوجی ہو یا سول مشرقی ہو یا مغربی۔ فکری ہو یا عملی، سیاسی ہو یا معاشی، سماجی ہو یا ابلاغی اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے ورنہ انسانوں کا معاشرہ نیند میں چلنے والوں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔
اسی لیے آزادی کی ہر جدوجہد مقدس ہے۔ اس لیے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، جنرل بخت خان، محمد علی جناح اور افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا کے خلاف جہاد کرنے والے مسلمانوں کے حقیقی ہیروز ہیں۔
انسان کے نیند میں چلنے کا عمل اتنا اہم ہے کہ اس کے خلاف کبھی فلمی گیتوں تک میں علم بغاوت بلند کیا جاتا تھا اور انسان کو یاد دلایا جاتا تھا کہ اسے حقیقت اور فریب کے فرق پر آگاہ ہونا چاہیے۔ ذرا یہ فلمی گیت تو پڑھیے۔
سجن رے جھوٹ مت بولو
خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے
وہاں پیدل ہی جانا ہے
**
بھلا کجیے بھلا ہوگا
بُرا کجیے بُرا ہوگا
بہی لکھ لکھ کے کیا ہوگا
یہیں سب کچھ لٹانا ہے
**
تمہارے محل چوبارے
یہیں رہ جائیں گے سارے
اکڑ کس بات کی پیارے
یہ سر پھر بھی جھکانا ہے
**
لڑکپن کھیل میں کھویا
جوانی نیند بھر سویا
بڑھاپا دیکھ کر رویا
وہی قصہ پرانا ہے
افسوس جن حقائق کا شعور کبھی ’’فلم‘‘ تک میں موجود تھا اب ان کا شعور ’’علم‘‘ تک میں موجود نہیں۔ مگر نیند میں چلنے والوں کی دنیا میں یہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ شاعر نے کہا ہے:
نیند سے ڈھالے ہوئے لوگ مرے چاروں طرف
اور میں پروردۂ دل رقصِ جنوں کرتا ہوا