حکمرانو ں کے منہ کھلے اور آنکھیں بند ہیں۔ احساس ہی نہیں عوام کس عذاب میں ہیں۔ حکومت وعدوں کا قبرستان بنتی جارہی ہے جس کے باہر بڑا سا ’’یوٹرن کا بورڈ‘‘ لگا ہوا ہے۔ معیشت کسے کہتے ہیں۔ معاشی طور پرملک کس سمت گا مزن ہے۔ ان سوالات کے جواب کسی ما ہر معیشت سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ قیمتیں بڑھ رہی ہیں یا گھٹ رہی ہیں، روزگار کے مواقع میں اضافہ ہورہا ہے یا ان میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بس یہ دیکھ لیجیے۔
عجیب حکومت ہے۔ وزیراعظم کی معاشی حکمت عملی، فراست اور ویژن چھابڑیوں، ٹھیلوں، مرغیوں اور انڈوں سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ (ان اشیا پر جس طرح عمران خان کی نظر ہے لگتا ہے کچھ دن میں یہ بھی غریبوں کی دسترس سے باہر ہو جائیں گی۔) کابینہ کے اجلاسوں میں اسد عمر کی ’’معاشی بصیرت‘‘ سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس کس طرح غریبوں کا تیل مزید نکالا جاسکتا ہے۔ عدلیہ ’’حکمران طبقے کے قبضے‘‘ ریگو لرائز کرانے میں مصروف ہے۔ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزر سکتا ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ سے کسی غریب کا ٹھیلا، پتھارہ، جھونپڑی، دکان اور ٹھیہ ریگولرائز نہیں کرایا جاسکتا۔ تمام ضابطوں، قانون اور آئین کی تشریحات میں غریب وہ تجاوزات ہیں جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جارہا۔ اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ نے نہ جانے دھنیے کا کون سا ست پلایا ہے کہ اس کی رگوں میں جمی ٹھنڈائی پگھلنے کا نام نہیں لے رہی۔
تخلیق کائنات کے بارے میں جس نظریے نے زیادہ شہرت حاصل کی اس کا نام بگ بین ہے۔ اس نظریے کے مطابق کائنات ایک بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ ایک دوسرا نظریہ بھی ہے۔ جس کے مطابق کائنات 92 کے ورلڈ کپ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ اس نظریے کا تعلق عمران خان کے چاہنے والوں سے تھا۔ جو دو طبقات سے متعلق تھے، میڈیا اور عوام۔ جن کے لیے آج محض آٹھ ماہ بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ عمران خان کی حکومت ایک خوبصورت جھوٹ ہے یا بدترین محسن کش۔ پہلے محسن کشی کی بات کرتے ہیں۔ جن دنوں عمران خان نواز شریف، زرداری اور مولانا فصل الرحمن کو کرپٹ، چوروں کا ٹولہ، اوئے، اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر مخاطب کرتے تھے یہ میڈیا تھا جو گھنٹوں گھنٹوں عمران خان کے جلسوں اور ان کی ایک ایک ادا کی کوریج کرتا تھا۔ عمران خان کی تائید میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ایسی درگت بناتا تھا کہ ان پارٹیوں کے اچھے اچھے مداح ڈگمگا جاتے تھے۔ کسی بھی ٹی وی چینل کا کوئی ایسا مزاحیہ پروگرام نہیں تھا جو مولانا فضل الرحمن کی بھد اڑائے بغیر مکمل ہوسکتا ہو۔ یہ میڈیا ہی تھا جس نے عمران خان کے ان دعووں کو حقیقت کے روپ میں پیش کیا کہ گزشتہ حکومتوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ ملک کو تباہ کردیا ہے۔ صحافیوں نے دن دیکھا نہ رات، سردی دیکھی نہ گرمی عمران خان اور بنی گالا کی اس طرح کوریج کی جیسے وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہوں۔ میڈیا کی یہ پرزور تائید ہی تھی جس نے عمران خان کی 22سال سے جاری جدوجہد کی کا میابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اور۔ اور۔ اور عمران خان کے برسر اقتدار آتے ہی جس طبقے نے سب سے پہلے زخم کھائے، مشکلات کا سامنا کیا وہ یہی صحافی تھے۔ میڈیا ورکرز۔ عمران خان کے بابرکت قدموں کا نزول ہونا تھا کہ ملک بھر سے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے میڈیا کارکنوں کی نوکریاں ختم کردی گئیں، انہیں برطرف کردیا گیا یا ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ وہ جبری برخواستگی پر مجبور ہوگئے۔ جن کی نوکریاں بچ گئیں ان کی تنخواہوں میں بیس سے پچاس فی صد کٹوتی کردی گئی۔ پانچ پانچ چھ چھ مہینوں سے صحافیوں کو تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ ماضی میں صحافیوں کو جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا تھا اب معاشی طور پر ہراساں کیاجاتا ہے۔ یہ حربہ زیادہ کامیاب ہے۔ حکومت کو میڈیا سے من پسند نتائج مل رہے ہیں۔ نصرت جاوید، طلعت حسین اور کئی مشہور اینکر پرسن میڈیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ کئی کے پروگرام بند کیے جاچکے ہیں۔
دوسرا طبقہ جس نے عمران خان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا وہ غریب عوام تھے۔ محسن کشی کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے جن کی ایسی تیسی کرنے میں عمران خان کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ سب سے پہلے تجاوزات کے نام پر غریبوں کے مکانات اور مارکیٹوں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ ٹھیلوں اور پتھاروں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ جن دکانوں اور مارکیٹوں سے بلدیاتی ادارے کرائے لیا کرتے تھے اچانک بلڈوزر، کرینیں اور ٹریکٹر انہیں گرانے پہنچ گئے۔ انہیں مناسب مہلت دی گئی اور نہ متبادل جگہ۔ کرپشن کے خاتمے کے ڈھکوسلے کے نام پر بننے والی حکومت نے ان افسروں سے معمولی سی باز پرس بھی کرنا گوارا نہیں کی جنہوں نے رشوت لے کر ان تجاوزات کو قائم کرنے میں مددی تھی۔
نواز شریف کی سابقہ حکومت کو گالیاں دیتے ہوئے عمران خان کی حکومت نے آتے ہی دو مرتبہ بجٹ میں ترامیم کیں۔ یہ ترامیم غریبوں کی محبت میں یا ان کا معاشی بوجھ کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں باریک اور بہت باریک پیسنے کے لیے کی گئی تھیں۔ ان ترامیم کی بدولت ادویات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہونا شروع ہوگئی۔ جس سے ایک طرف مہنگائی میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف مزدوروں کی اجرت کم ہوگئی۔ آٹھ ماہ میں بجلی تین بار، پٹرول تین بار، گیس دو بار اور ادویات دو بار مہنگی ہوئی ہیں۔
محسن کشی کے بعد اب آئیے جھوٹ کی وارداتوں کی طرف۔ حکومت پٹرول بجلی، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے لیے جس کا بڑا فنکاری سے استعمال کرتی ہے۔ حکومت کو یکم اپریل سے پٹرول کے نرخوں میں چھ روپے کا اضافہ کرنا تھا۔ فریب کا سہارا لیتے ہوئے اوگرا کی طرف سے بارہ روپے اضا فے کی پبلسٹی کی گئی۔ عوام میں غم وغصہ تخلیق کیا گیا۔ پھر ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے چھ روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ عوام بھی خوش، ان پر احسان بھی کردیا گیا اور نرخوں میں اضافہ بھی ہوگیا۔ یہ چالبازی کا پرانا طریقہ ہے۔ دو قدم آگے بڑھو لوگ احتجاج کریں تو ایک قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔ اس اضافے میں ایک خوبی تھی اس کے بعد چرس اور پٹرول کی قیمت ایک ہوگئی۔ عوام چاہیں تو سفر کریں، چاہیں تو خوب اور خوب جھومیں۔
جھوٹ کی دوسری بڑی واردات گیس کے بلوں سے متعلق ہے۔ پچھلے مہینے حکومت نے کمال مہربانی کرتے ہوئے گیس کے اندھا دھند اضافہ شدہ بل غریبوں کو ارسال کردیے۔ یہ اسد عمر کے ایک وعدے کی تکمیل تھی جس میں انہوں نے غریبوں کی چیخیں نکلوانے کا ذکر کیا تھا۔ عوام کی چیخیں عرش سے ٹکراکر تھو تھو کی شکل میں واپس پلٹیں، عوام ہر طرف چیخنے لگے، تو کسی معذرت کے بجائے ایک اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ہم نے اس سسٹم کا سراغ لگا لیا ہے، ان افراد کو پکڑ لیا ہے جو اس واردات میں ملوث تھے۔ اس اصلاح کے بعد آئندہ ایسی کسی غلطی کا ارتکاب ممکن نہیں رہے گا۔ اگلا مہینہ آیا تو بل اتنے کے اتنے واپس آگئے۔ عوام کی چیخیں عرش کے پار جانے لگیں تو وعدہ کیا گیا کہ ہم جون تک گیس کے بلوں کی اصلاح کردیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے مہینے جب حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے بل درست کردیے ہیں تو پھر وہ اصلاح شدہ بل عوام کو کیوں موصول نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے کوئی اصلاح نہیں کی بلکہ جھوٹ بولا تھا۔ رہا جون تک اصلاح کا وعدہ تو اس پر کیسے اعتبار کیا جائے۔ کیسے ایک ہی سوراخ سے بار بار خود کو ڈسوا جائے۔ کب تک ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑا جائے۔ آخر میں چند اقوال زریں بہ زبان عمران خان جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے۔ ’’یہ انہوں نے جو ظلم کیا ہے ہماری پاکستان کی اکانومی میں، شاید ہم کسی کے ساتھ جنگ بھی لڑتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا‘‘۔ ’’اگر میں نے مہنگائی کرکے ہی پیسہ بنانا ہے تو مجھے تو اکانومسٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ کراچی کے اندر چار پانچ گروپس ہیں جو جگا لیتے ہیں بھتا لیتے ہیں لوگوں سے۔ یہ (مہنگائی نہیں) بھتا ہوگیا ہے‘‘۔ ’’آئی ایم ایف کے کہنے پر روپیہ گرایا گیا۔ ایک روپیہ گرنے سے 70ارب کے قرضے چڑھ گئے۔ روپیہ گرنے سے ساری چیزیں مہنگی ہوگئیں‘‘۔ ’’جب آپ قیمتیں بڑھاتے ہیں تو غریب غریب ہوجاتا ہے چھوٹا سا طبقہ امیر ہوجاتا ہے۔ یہی ہورہا ہے پاکستان میں‘‘۔