کچھ جائزہ لیتے ہیں

321

آٹھ ماہ قبل‘ جب ملک میں عام انتخابات ہورہے تھے‘ تحریک انصاف کے ہر جلسے میں‘ ہر چوک چوراہے میں اس کی انتخابی مہم کے دوران ان کا نعرہ تھا کہ وہ پاکستان سے لوٹی گئی 200 ارب ڈالر کی رقم کو سوئیٹزر لینڈ سے واپس لے آئیں گے۔ ملک کے بڑے چوروں کو گرفتار کرکے ان کا احتساب کریں گے۔ بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔ عام انتخابات سے پہلے یہ تاثر بہت حد تک واضح ہوچکا تھا کہ 2018ء میں حکومت تحریک انصاف کو مل رہی ہے، کیوں کہ نواز شریف نااہل ہوچکے تھے اور خود تحریک انصاف کے لیڈر بار بار یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ حکومت بنانے جارہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد کیا کچھ کرنا ہے، اس حوالے سے ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے خیر عمران خان نے وزیرِاعظم بننے کے بعد پہلا اعلان کیا کہ وزیرِاعظم ہاؤس کو ایک اعلیٰ قسم کی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا، یہ اعلان تو ہوچکا، مگر اب بھی اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا‘ وزیراعظم ہاؤس کی قیمتی گاڑیاں اور اعلیٰ نسل کی بھینسیں نیلام کردی گئیں، اور بتایا گیا کہ اس سے معیشت کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ عام آدمی کے لیے یہ تمام خبریں باعث تسکین تھیں پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ ایک دن آئے گا جب خوشحالی ان کی ساری تھکن اتار دے گی، لیکن تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد جوں جوں دن گزرتے گئے معاملہ الٹ ہی ہوتا چلا گیا نئی حکومت نے آتے ہی (ن) لیگ کے پیش کیے گئے فنانس بل میں 2 بار ترامیم کیں اس دوران ادویات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہوتی رہی، ایک طرف مہنگائی بڑھ گئی تو دوسری طرف مزدوری کی اجرت کم ہوگئی۔۔۔
یکم مئی یوم مزدور بھی آنے والا ہے۔۔۔ حکومت بھی اس روز ملک کے مزدوروں کو ضرور کچھ بہلائے گی‘ ایک رائے یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے‘ حکومت پر تنقید کسی حد تک غیر ضروری بھی ہورہی ہے‘ اس کے جواب میں دوسری رائے ہے کہ معاملہ سیاسی رویوں کا بھی ہے، پارلیمان وہ فورم ہے جہاں حکومتی رویوں کا واضح پتا چلتا ہے، لیکن اگست 2018ء سے رواں ماہ اپریل تک دیکھا جائے تو قومی اسمبلی یا سینیٹ کے جب بھی اجلاس ہوئے تو حکومتی ذمے داران نے خود ہی اپنے لیے مسائل پیدا کیے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر ملک کے بڑے ایوان چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے، اس لیے اکثر وہ حالات کو کنٹرول نہیں کرپاتے۔ گزشتہ ساڑھے سات ماہ کے دوران جتنی قانون سازی کی ضرورت تھی وہ نہیں ہوپائی وزیرِاعظم عمران خان، جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں دوران اجلاس ایک دن خود وقفہ سوالات میں ارکان کے جواب دیں گے، وہ یہ وعدہ بھی پورا نہ کرسکے نواز شریف کی نسبت عمران خان اپنے دفتر کو ان سے 3 گنا زیادہ وقت دیتے ہیں اور ہر ہفتے وفاقی کابینہ کے تواتر سے اجلاس بھی ہورہے ہیں، لیکن اہداف واضح نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری رکاوٹیں انہیں آگے بڑھنے نہیں دے رہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت نے اگر اب بھی عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا تو کرپشن کے خلاف سیاسی نعرہ بے فائدہ ہوجائے گا۔ لہٰذا وزیرِاعظم کو سنجیدہ ہونا ہوگا، حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی کابینہ اور مشینری کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا، کیوں کہ ساڑھے سات ماہ ملکی سمت کا تعین کرنے کے لیے کافی مناسب وقت ہے زمینی حقائق ہیں کہ عام آدمی زیادہ تنگ ہوچکا ہے، اور کرپشن کرپشن کا کھیل تب ہی چل سکتا ہے جب عام آدمی ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے درمیان فرق کرسکے اگر وہ اس دور میں بھی مشکل زندگی گزار رہا ہے تو پھر اس کے لیے دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ایک خبر ہے یا پیش کش‘ سابق وزیر خزانہ اسحاق دار نے پیش کش کی ہے کہ وہ ڈالر کی قیمت نیچے لانے کے لیے حکومت کو مشاورت دینے کو تیار ہیں جس کے جواب میں وزیرخزانہ اسد عمر نے خاموشی توڑی کہ وہ معیشت کے لیے سرتاج عزیز کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ہامی ہیں لیکن شیخ رشید احمد تو دو ہاتھ آگے بڑھ گئے کہ کہتے ہیں کہ اگر اسحاق ڈار ان کے سامنے آجائیں تو وہ انہیں چانٹا ماریں۔۔۔ فرزند راولپنڈی‘ شیخ رشید احمد‘ ایک پرانے سیاسی کارکن ہیں‘ ایسا رویہ؟ اور ایسا بیان؟ اچھا نہیں لگا‘ اسد عمر کو سرتاج عزیز کیوں پسند ہیں انہیں یہ بات پسند ہے کہ سرتاج عزیز نے ہمیشہ کتابی فیصلے کیے تھے جب کہ اسحاق ڈار عملی مارکیٹ کے مطابق فیصلے کرتے رہے ہیں گزشتہ 5سال میں جی ڈی پی ساڑھے 4 فی صد تھی اس وقت ہمارے جاری کھاتوں کا خسارہ 2 ارب ڈالر ہے اب حکومت نے ایک نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے کا فیصلہ کیا ہے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ سالانہ وفاقی بجٹ سے قبل یہ اسکیم لائی جارہی ہے اس کا مقصد ہے کہ کاروباری برادری سے ان کی اندرون اور بیرون ملک جائداد سامنے لائی جائیں۔ وزیر خزانہ کے فیصلوں پر پارٹی کے اندر اور باہر دونوں جگہ بحث ہورہی ہے یہاں تک بھی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جو انہیں زمینی حقائق کے مطابق سپورٹ کرے۔