ابھی اس منظر کو ایک صدی بھی نہیں گزری جب مسلمان دنیا کے ایک وسیع وعریض رقبے کے طاقتور حکمران تھے اور یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کی ایک بڑی تہذیب اور ثقافت کے امین اور نمائندے تھے۔ اتنا ہی عرصہ ہوا کہ دنیا ایک انقلاب سے آشنا ہوئی اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت پارہ پارہ ہوتی چلی گئی اور ایک ملک اور جغرافیائی شناخت سے محروم ایک آبادی مسلمانوں کے قلب میں جمع ہونا شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے وہ رقبہ اور اس میں جمع ہونے والی آبادی ایک ملک کی صورت ڈھلتی چلی گئی اور یوں اسے اسرائیل کا نام بھی عطا ہو گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی یہ محدود سے رقبے اور تھوڑی سی آبادی کا حامل ملک پھیلتا چلا گیا اور اس کے مقابل ایک عالمگیر تہذیب کے نمائندہ علاقے اور ریاستیں چھوٹی ہوتی چلی گئیں۔ پھیلنے اور سکڑنے کا جو عمل اکہتر برس قبل منظم انداز میں شروع ہوا تھا اب بھی مختلف انداز سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’’سب کی جیت‘‘ کے اصول کے تحت واحد قابل قبول حل دو ریاستوں کے قیام میں مضمر رہا ہے یعنی مسلمان اسرائیل کو مٹا ڈالنے کا نظریہ ترک کریں اور اسرائیل مسلمانوں کو سمندر برد کرنے کا خواب چھوڑ کر بقائے باہمی کے تحت اپنی اپنی ریاستوں میں سمٹ جائیں۔ فلسطینیوں کی اکثریت کو یہ فارمولہ قبول نہیں رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس اصول کو ذہنی طور پر تسلیم کرتے چلے گئے۔ فلسطین کی ریاست کے لیے مشرقی یروشلم کو ہمیشہ دارالحکومت کی شکل میں دیکھا گیا۔ اسی لیے دنیا نے کسی ممکنہ حل کا دروازہ کھلا رکھنے کے لیے یروشلم میں اپنی سفارتی سرگرمیوں سے گزیز کیے رکھا گویا کہ وہ یروشلم پر اسرائیل کے دعوؤں کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہے۔ امریکا کے موجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے گویا کہ پرامن بقائے باہمی پر مبنی ایک ممکنہ حل کا امکان ختم کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں یروشلم کو پلیٹ میں رکھ کر اسرائیل کو پیش کر دیا۔ چند برس کی خاموشی کے بعد امریکا نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا دعویٰ تسلیم کر کے ایک اور متنازع علاقے کو اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیا۔ گولان کی پہاڑیاں شام کا حصہ ہیں اور ان پہاڑیوں پر مدتوں شدید لڑائی چلتی رہی ہے۔ بات یہیں رکنے والی نہیں تھی کیوں کہ اب اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے غرب اردن کی یہودی آبادیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دو ریاستی منصوبے اور حل میں مجوزہ فلسطینی ریاست غزہ کی پٹی، غرب اردن کی آبادیوں اور مشرقی یروشلم پر قائم ہونا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی اسکیم کو دیکھیں تو باقی صرف غزہ کی پٹی بچتی ہے جو کسی آزاد ریاست کی شکل میں ڈھلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس طرح اسرائیل روز بروز وسعت پزیر ہے۔
دوسری جانب مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے۔ امریکا نے ایران کی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ پاسداران انقلاب ایرانی فوج کا حصہ اور اس کی بیرونی پرت ہے۔ دنیا میں امریکا کی طرف سے کسی ملک کی فوج کو دہشت گرد قرار دینے کا یہ پہلا واقعہ ہوگا۔ اس سے پہلے مشرق وسطیٰ میں غیر حکومتی جماعتوں اور ملیشیاؤں، حزب اللہ، حماس اور حرکت الجہاد اسلامی اور جنوبی ایشیا میں لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور جیش محمد جیسی پرائیویٹ فورسز کو دہشت گرد قرار دیا جاتا رہا ہے۔ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے میں خود مسلمان دنیا میں جشن منانے کا بہت جواز ہے کیوں کہ مسلمان ملکوں میں اختلافات جس قدر گہرے بنادیے گئے ہیں وہاں ایک دوسرے کی کلائی مروڑے جانے کے مناظر کا لطف ملنا فطری سا ہے مگر جشن منانے والے یہ یاد رکھیں کہ یہ ایک نئے اصول کی ابتدا اور نئے دائرے آغاز ہے۔ پرائیویٹ فورسز اور ملیشیاؤں کے بعد یہ دوسری پرت کی جانب بڑھنے کی ابتدا ہے۔ جب برسوں پہلے حزب اللہ اور حماس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اقدامات ہورہے تھے تو کون تصور کرسکتا تھا کہ اس اصول اور طریقے کو بین الاقوامی طور وسعت دی جائے اور چلتے چلتے یہ سلسلہ دور جنوبی ایشیائی تنازعے کشمیر میں جماعت الدعوۃ، جیش محمد اور اس انداز کی دوسری تنظیموں تک دراز ہوجائے گا؟۔
پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے سے مسلمان دنیا میں منظم افواج کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں مگر شاید مسلمان قیادت نے اپنے حقیر مفادات کے لیے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ اسی لیے وہ ایک ایک کرکے مقتل کی طرف بڑھتے اور قتل ہوتے جا رہے ہیں۔ قطار میں کھڑا ہر کردار اس گمان میں مبتلا ہے کہ صرف آگے والا ہی مقتل کا ایندھن بن رہا ہے وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اگلی باری اسی کی ہے۔ پژمردگیئ گل پر ہنسی جب کوئی کلی آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بچے سے بھی لیبیا اور عراق کے حکمرانوں کا نام پوچھا جاتا تو وہ معمر قذافی اور صدام حسین کے نام لیتا۔ برے تھے یا بھلے آمر تھے یا جمہوری مگر ان کے اور ان کے زیر سایہ مسلمان معاشرے کچھ منظم تھے، ترقی پزیر تھے، سول اسٹرکچر کے حامل اور پرامن تھے اور ان کی قد آور قیادتیں عالمی شناخت رکھتی تھیں۔ ان کو ہٹا کر جمہوریت لانے کے نام پر مسلمان دنیا کو انتشار سے بھر دیا گیا۔ اب قذافی کے لیبیا اور صدام کے عراق کے حکمران کون ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ منظم سول اسٹرکچر اور ریاستوں سے پورا خطہ وارلارڈز میں بٹ گیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ آمر مطلق قذافی کے بعد لیبیا جمہوریت اور ترقی کا مثالی نمونہ ہوگا مگر تازہ خبر یہ کہ قذافی کے جانے کے برسوں بعد لیبیا میں خانہ جنگی کم نہیں ہوئی۔ لیبین نیشنل آرمی نے طرابلس پر ایک بار پھر چڑھائی کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ جمہوریت، شہری آزادیوں، انسانی حقوق، بہار عرب کے نام پر مضبوط لیڈرشپ، مضبوط معیشت اور مضبوط فوج کو نشانے پر رکھ کربعد مشرق وسطیٰ کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ کیا عجیب منظر ہے کہ اسرائیل انتشار اور بدامنی کے سمندر کے درمیان رہ کر امن کا جزیرہ بن کر پھیلتا جا رہا ہے اور اس کے گرد وپیش میں طوفان ہیں کہ اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ میں پاسداران انقلاب کو دہشت گردقرار دینے کے اشاروں پر جشن نہیں منا سکتا کیوں کہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ تو ایک ایسے اصول کی ابتدا ہوتی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔