چھ ہفتوں کے بعد کیا ہوگا؟

380

میاں نواز شریف اپنی بیماری کے سبب چھ ہفتوں کی ضمانت پر ہیں، وہ جیل میں تھے تو اُن کے دل کی بیماری اخبارات میں موضوع بحث بنی ہوئی تھی۔ کہا جارہا تھا کہ معاملہ بہت سیریس ہے اور حکومت مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہورہی ہے۔ حکومت بھی شدید دباؤ میں آئی ہوئی تھی۔ اس نے کئی میڈیکل بورڈز قائم کیے اور ماہرین سے ان کا معائنہ کروایا، سب کی رائے یہی تھی کہ دل کا معاملہ ہے اس لیے میاں صاحب کو اسپتال میں داخل ہو کر مناسب علاج کروانا چاہیے لیکن میاں صاحب ضمانت کے بغیر علاج کے لیے آمادہ نہ تھے۔ بالآخر عدالت عظمیٰ نے ان کے وکیل کی درخواست پر ان کے لیے چھ ہفتوں کی عارضی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے البتہ پاکستان میں جہاں چاہیں اپنا علاج کراسکتے ہیں۔ ضمانت پر رہا ہوئے انہیں دو ہفتے سے زیادہ ہوگئے ہیں، وہ جاتی امرا میں استراحت کررہے ہیں، علاج کے لیے انہوں نے اپنے ذاتی اسپتال شریف سٹی اسپتال کا انتخاب کیا ہے۔ وہ اسپتال میں داخل تو نہیں ہوئے لیکن اس اسپتال کے ڈاکٹر گھر پر ان کا علاج کررہے ہیں۔ یہ اسپتال ان کے مرحوم والد میاں محمد شریف کا خواب تھا۔ وہ اپنی عملداری میں ایک ایسا اسپتال قائم کرنا چاہتے تھے جس میں عارضہ قلب سمیت دیگر بیماریوں کا نہایت معیاری اور اطمینان بخش علاج ممکن ہوسکے۔ یہ خواب ان کی زندگی ہی میں پورا ہوگیا تھا اور وہ خود بھی اپنے اسپتال میں زیر علاج رہے، لیکن میاں نواز شریف تو اقتدار کے گھوڑے پر سوار تھے وہ جب بیمار ہوئے تو انہوں نے پاکستان میں اپنا علاج کرانا کسرِ شان سمجھا اور لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہے جہاں ان کے دل کا بڑا آپریشن بھی ہوا، وہ تین ماہ تک لندن میں مقیم رہے لیکن پارلیمنٹ سے رخصت لی نہ ملک کے اس اعلیٰ ترین ادارے کو اپنی بیماری کے بارے میں کچھ بتانا ضروری سمجھا بلکہ وہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر اپنا اسٹاف بھی لندن لے گئے اور وہاں سے پاکستان پر حکومت کرتے رہے۔ کہتے ہیں رسّی جل جاتی ہے بَل نہیں جاتا۔ میاں صاحب اقتدار سے محروم ہوگئے لیکن ان کی شان بان وہی ہے، انہیں وہ تمام روگ لگے ہوئے ہیں جو اس عمر میں آسودہ حال لوگوں کو لگ جاتے ہیں۔ دل کے عارضے کے علاوہ وہ گردے کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں بلکہ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے بھی مریض ہیں۔ یہ ساری بیماریاں زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور چھ ہفتوں میں ان کا علاج ممکن نہیں ہے جب کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں صرف چھ ہفتوں کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنا علاج کراکے جیل واپس چلے جائیں، اگر نہیں گئے تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ البتہ عدالت عظمیٰ نے انہیں یہ رعایت دی ہے کہ وہ مزید ریلیف کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں جہاں سزا کے خلاف ان کی اپیل پہلے ہی زیر سماعت ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہائی کورٹ بھی انہیں علاج جاری رکھنے کے لیے مزید چھ ہفتوں کی مہلت دے سکتی ہے۔
سیاست امکانات کا کھیل ہے اور سیاستدان ہونے کے ناتے میاں صاحب کی بیماری کا تعلق بھی سیاست سے ہے جس میں امکانات کے در کھلے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ کے متوالے برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ میاں صاحب کو دوبارہ جیل نہیں جانے دیں گے۔ ادھر ایک باخبر اخبار نویس نے دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کی عارضی رہائی اگرچہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے لیکن اس کے پیچھے ڈیل کی سحر کاری موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ میاں صاحب سے ’’پلی بارگین‘‘ کی کوشش ہورہی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی اس طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز اور زردری قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کردیں تو وہ انہیں چھوڑ دیں گے۔ یعنی قانون اور عدالتیں کیا بیچتی ہیں سارا اختیار تو وزیراعظم کے پاس ہے اور ان کی ساری دلچسپی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے پر ہے اور وہ بھی پلی بارگین کے ذریعے۔ یہ بھی ڈیل کی ایک شکل ہے جس میں ملزم نے اگر سو روپے لوٹے ہیں تو وہ پچیس روپے واپس کرکے پاک صاف بن جاتا ہے اور پھر لوٹ مار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ شریف خاندان تیس پینتیس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ہے اس نے کتنی دولت اکٹھی کی ہے ہمیں اندازہ نہیں لیکن سنا ہے کہ حکومت اپنے اندازے کے مطابق میاں صاحب سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ شنید ہے کہ میاں صاحب 2 ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہیں، البتہ لندن میں مقیم ان کے بیٹے اس ڈیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت محنت سے دولت کمائی ہے اسے حکومت کے حوالے کیوں کردیں۔ البتہ میاں صاحب کی والدہ نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ بیٹا جان ہے تو جہان ہے تم اپنی بیماری کا صدقہ دے کر جان بچاؤ۔ اب دیکھیے یہ ڈیل 2 ارب ڈالر پر ہوتی ہے یا حکومت مزید نکلوانے میں کامیاب رہتی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت نے چین سے 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کا قرضہ نہایت بھاری شرح سود پر حاصل کیا ہے۔ اپنوں سے یہ رقم مفت مل جائے تو بُرا کیا ہے۔ البتہ زرداری ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘ کے اصول پر سختی سے کار بند ہیں۔ انہوں نے جس بڑے پیمانے پر ملک کو لوٹا ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ ایک دھیلا بھی واپس کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، انہوں نے اپنے خزانے کی کنجی اپنے بیٹے کے سپرد کرکے اسے بھی اپنی پشت پر کھڑا کرلیا ہے اور اس کا جوان خون اپنے باپ کے دفاع میں خوب جوش مار رہا ہے۔ خود زرداری نے خبردار کیا ہے کہ وہ جیل میں ہوں یا جیل سے باہر حکومت کو گرا کر دم لیں گے۔
بہرکیف سیاست امکانات کا کھیل ہے، میاں نواز شریف چھ ہفتوں کی رہائی ختم ہونے کے بعد ہائی کورٹ سے مزید ریلیف حاصل کرسکتے ہیں اگر حکومت سے ڈیل کامیاب رہی تو وہ لندن اُڑان بھی بھر سکتے ہیں پھر قانون انہیں حیرت سے تکتا رہ جائے گا۔