شرمندگی اور ندامت کی قیمت

338

 

وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں اور 16سے 20اپریل کے درمیان بھارت کے ایک اور حملے کا خطرہ ہے۔ بھارت بہت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت اس کارروائی کا جواز پیدا کرنے کے لیے پلوامہ جیسا کوئی حملہ خود کراسکتا ہے اور اس معاملے میں ہمارے پاس مصدقہ انٹیلی جنس معلومات ہیں۔ وزیر خارجہ نے پاک بھارت کشیدگی کی حالیہ لہر میں اقوام متحدہ کے غیر موثر ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ شاہ محمود قریشی کے بیان کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے عوام کے سروں پر منڈلانے والے خطرے سے سلامتی کونسل کے ارکان سے رابطہ کیے ہوئے ہے مگر سلامتی کونسل میں ایک گہری تقسیم اُبھر چکی ہے۔ امریکا اور یورپی بلاک بھارت کا ہمنوا ہے جبکہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور چینی اثر رسوخ کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ روس غیر جانبداری کی پوزیشن اختیار کررہا ہے بلکہ رقیبوں کے ڈیروں میں ہونے والی سازشوں کی خبریں بھی لیک کرکے پاکستان کو فراہم کرتا ہے۔ روس کی غیر جانبداری بھی ماضی کے آئینے میں بھارت کے لیے نقصان دہ اور پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے۔ پاکستان نے بھارتی جہازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر رکھی ہیں۔
چند ہی دن پہلے میڈیا میں یہ رپورٹ آئی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بھارتی فوج کو آزادکشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی اہداف پر حملے کی اجازت دی ہے۔ اس دوران میں سویلین نقصان سے ہر ممکن طور پر بچنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکی بھی تھی۔ اس دوران امریکا سے آنے والی ہوائیں بھی خطرات اور تصادم کی خبریں دے رہی ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ کئی ماہرین کی رپورٹس میں اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ حالیہ کشیدگی میں بھارت کو شرمندگی اور ہزیمت اُٹھانا پڑی ہے۔ بالاکوٹ میں تین سو افراد کو ہلاک کرنے اور ایف سولہ طیارے کے گرائے جانے کے دعوے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی کو کشیدگی کو ہوا دے کر کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہوا ہے مگر مودی کی جیب میں انتخابات کے عین موقع پر کھیلنے کے لیے پاکستان کارڈ موجود ہے اور وہ کسی بھی وقت ووٹروں پر اثرا انداز ہونے کے لیے انتخابات سے کچھ ہی دیر پہلے یہ کارڈ کھیل سکتے ہیں۔ امریکی ماہرین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مودی اگر پاکستان پر حملہ نہ کر سکے مگر ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزیدبگاڑ پیدا ہوگا اور جنگ کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔
کنٹرول لائن پر اس وقت محدود جنگ جاری ہے۔ دونوں افواج کے درمیان گھمسان کا رن چل رہا ہے۔ بھارتی فوج نے سری نگر جموں شاہراہ پر دو دن صرف فوجی نقل وحمل کے لیے مختص کر دیے ہیں۔ ہر ہفتے اور بدھ کو پورا دن اس مصروف ترین شاہراہ پر صرف فوجی کانوائے ہی سفر کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ فیصلہ پلوامہ میں فوجی کانوائے پر حملے کے تناظر میں کیا گیا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ اس کی آڑ میں بھارت جنگی ساز وسامان کنٹرول لائن کی طرف منتقل کرنے کے ساتھ کشمیریوں کو ذہنی ٹارچر کرنا چاہتا ہے ابھی مصروف ترین شاہراہ کی بندش کے عمل کو چند دن ہی گزرے ہیں کہ کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف نفرت کا سیلاب آگیا ہے۔ اسلام آباد میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا گیا ہے۔ بھارتی انتخابات سر پر ہیں اور مودی ہر صورت انتخابات جیتنا چاہتا ہے۔ مودی کی مدد بیرونی دنیا سے بھی ہو رہی ہے جن کے خیال میں مودی جیسا سخت گیر حکمران ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی ڈوزئیر ایک کھوکھلا، ثبوت سے عاری الزامات کا پلندہ ہے۔ بھارت نے امریکا کی مدد سے مسعود اظہر کے خلاف سلامتی کونسل سے باہر ایک اور قرارداد لانے کی کوشش کی مگر چین نے سلامتی کونسل کو بائی پاس کرنے کی اس کوشش پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس قرار داد کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھارت کی ایک اور سُبکی ہے۔ سرجیکل آپریشن اور بالاکوٹ آپریشن سمیت تمام دعوے ڈھکوسلہ ثابت ہوئے اور خود بھارت کے اندر اس جھوٹ کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ پہلے تو بھارت کے اعصاب پر صرف آئی ایس آئی سوار ہوا کرتی تھی اب اس میں آئی ایس پی آر کا اضافہ ہوگیا ہے اور ایک سابق جرنیل نے کشیدگی کی حالیہ لہر میں آئی ایس پی آر کے فعال کردار کا برملا اعتراف کیا ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ بھارت کو اطلاعات کے محاذ پر بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بالاکوٹ ڈرامے کے بعد بھارت نے میزائل حملوں کی جو منصوبہ بندی کی تھی اسے بھی پاکستان کی جوابی دھمکی اور تیاریوں نے ناکام بنا دیا۔ کشیدگی کی لہر وقتی طور پر تھم گئی تھی مگر ختم نہیں ہوئی تھی۔ اب بھی بھارت کی مہم جوئی کا خطرہ موجود ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے مودی کی واپسی کی صورت میں بھی یہ خطرہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ بھارت نے اپنی شرمندگی اور ندامت کی قیمت تو وصول کرنا ہی ہے وہ کب اور کس طرح وصول کرتا ہے اب صرف اس کا انتظار باقی ہے مگر پاکستان کا جواب بتادے گا کہ یہ قیمت صرف تنہا اسی کو نہیں جنوبی ایشیاء کے کئی اور ملکوں کو بھی چکانا ہے۔ جنگ صرف لڑنے والوں سے ہی نہیں قرب وجوار والوں سے بھی اپنی قیمت وصول کرتی ہے۔