پاک بھارت مغالطے اور مبالغے

285

وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت کے انتخابات میں نریندر مودی کامیاب ہوجاتا ہے تو بھارت کے ساتھ امن قائم ہونے کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے اور اگر کانگریس انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو شاید وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں تھوڑی جھجک کا شکار ہوکیوں کہ انہیں دائیں بازو کی جماعتوں کے ردعمل کا ڈر ہوگا۔ حقیقت میں پاکستان اور بھارت مدتوں سے ایک دوسرے کے بارے میں مغالطوں اور مبالغوں کی دنیا میں زندہ ہیں۔ ایک موہوم امید پر جس کا خلاصہ ’’اگر یوں ہو تو یوں ہوجائے‘‘۔ کی صورت بیان کیا جاسکتا ہے۔ بھارت اس امید پر اپنے اختلافات اور مسائل کو حل کرنے سے گریزاں رہتا ہے کہ اگر پاکستان میں یوں ہوجائے تو شاید اس کی پسند کا حل برآمد ہو اور پاکستان بھی ہمیشہ سے یہی سوچتا آیا ہے کہ اگر بھارت میں تبدیلی اس شکل میں نمودار ہو تو شاید خطے کی جان کشیدگی کے عذاب سے چھوٹ جائے مگر ہر بار کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے اور امید کی کرن طلوع سے پہلے ہی ڈوب جاتی ہے۔
ایک زمانہ ہوتا تھا کہ جب پاکستان میں یہ خیال بہت گہرا تھا کہ کشمیر کے تنازعے اور پاک بھارت مستقل کشیدگی کی جڑ بھارت کا نہرو خاندان ہے۔ اس خاندان کے کشمیری النسل پس منظر اور نہرو کے کشمیر کو اپنی محبوبہ قرار دینے کے جذباتی انداز فکر نے ہی کشمیر کے مسئلے کو اُلجھا دیا ہے۔ یہ خاندان سیاسی طور پر کمزور ہوجائے تو جنوبی بھارت کے سیاسی لوگ آگے آئیں تو پاکستان ان کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں بات کر سکتا ہے۔ نہرو خاندان سیاسی ہی نہیں عملی طور پر بھی ایک مدت تک منظر سے غائب ہوگیا اور کم وبیش تین عشرے پر محیط اس عرصے میں جنوب سے تعلق رکھنے والے دیوے گوڑا جیسے سیدھے سادے، پنجابی بائیں بازو کے دانشور اور حقوق انسانی کے علم بردار اندر کمار گجرال جیسے لوگ بھی وزیر اعظم بنے مگر وہ ہمارے داؤ کا شکار ہونے کے بجائے ہم پر داؤلگانے کی کوشش کرتے رہے۔ یوں نہرو خاندان کے کمزور ہونے اور بھارتی سیاست میں نئے اور متنوع پس منظر کے حامل کردار اُبھرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت میں دیر پااور دائمی استحکام پیدا نہ ہوسکا۔ یہاں تک بھارتیا جنتا پارٹی سیاسی منظر پر اُبھری جس کی سوچ وفکر کو کانگریس پر ایک نادیدہ دباؤ کے طور پر دیکھا اور سمجھا جا رہا تھا۔ یوں ہماری شاخ امید اس منظر کو دیکھ کر خود بخود ہری ہونے لگی کہ اگر ’’دباؤ‘‘ خود طاقت بن جائے تو شاید پاکستان اس کے ساتھ زیادہ اعتماد کے ساتھ مکالمہ کر سکتا ہے۔ واجپائی کے دور میں یہ تصور کچھ آگے چلا مگر معاملات کی گاڑی بھی لڑھک گئی۔ جن کا خیال ہے کہ معاملات حل ہوچکے تھے وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کون سے معاملات حل ہورہے تھے اگر کشمیر
پر تصفیہ ہورہا تھا تو اس کی اصل شکل کیا تھی؟خود بھارت کے مغالطے بھی کم نہیں رہے۔ ان کا خیال رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستانی فوج اور وسطی پنجاب کی دلچسپی کا محور ہے۔ جنوب سے کوئی سیاست دان اُٹھے تو وہ منظر بدل سکتا ہے۔ جنوب کے سیاست دان سے یہ امیداس لحاظ سے محض خود فریبی تھی کہ جنوب سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کی ساری اُٹھان ہی کشمیر پر ہوئی تھی اور وہ کشمیر پر ایک زوردار موقف کے حامل تھے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو بھی کشمیر پر بھارت کی امیدوں کے برعکس موقف اپنا کر بھارت کی امیدوں کو مغالطہ ثابت کر چکی تھیں۔ جس کے بعد ان کا تصور یوں بدل گیا اگر وسطی پنجاب سے کوئی لیڈر بھارت سے دوستی اور تجارت کا قائل ہو جائے تو وہ اس راہ پر زیادہ اعتماد کے ساتھ بڑے قدم اُٹھا سکتا ہے۔ فوج کے لیے بھی اس لیڈر کے قدموں
میں بیڑیاں ڈالنا آسان نہ ہوگا۔
تصور کے اس سراب کا تعاقب اس وقت شروع ہوا جب وسطی پنجاب یا لاہور سے تعلق رکھنے والے میاں نوازشریف پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اندر کمار گجرال نے ایک موہوم امید پر ذاتی تعلقات کا کارڈ پھینک دیا۔ یہ تصور بھی وقت کی بساط پر پٹ گیا تو ایک اور موہوم امید بندھ چلی اگر پاکستان میں اقتدار اور اختیار کا اصل سرچشمہ سمجھی جانے والی فوج براہ راست اقتدار میں ہو تو وہ بھارت کو رعائتیں دے کر جنوبی ایشیا کو کشمکش کی صلیب سے اُتار سکتی ہے۔ پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو بھارتی دانشوروں نے ان کا سہرا لکھنا شروع کیا۔ تعریفوں کے پل باندھنے جا نے لگے اور نوازشریف کی طرح نہر والی حویلی کے ذاتی تعلق ڈھونڈے اور تراشے جانے لگے۔ پرویز مشرف ایک حد تک آگے چلے اور لڑکھڑا کر گر پڑے۔ اب جبکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی کھیتی بھسم ہو چکی ہے۔ رہے سہے رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔ تعلقات کے کمزور تار کمزور تر ہو چکے ہیں یا مکمل ٹوٹ چکے ہیں مگر بھارت میں امید مغالطے اور مبالغے کی یہ چنگاری راکھ کی تہ میں موجود ہے کہ اگر پاکستان میں فوج اور سویلین حکمران ایک صفحے پر ہوں تو ان سے معاملات طے کرنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ اب ان کا خیال ہے کہ عمران خان وہ شخصیت ہیں کہ جو ایک صفحے کے میعار پر پورا اُتر رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی امید کا اظہار عمران خان نے بھی کیا کہ مودی خود بھارت میں موجود وہ دباؤ ہیں جو کانگریس کو ہمیشہ بڑے فیصلوں سے روکے ہوئے ہے۔ یہ خوش امیدی کوئی نئی نہیں ماضی میں بھی پاکستان اسی کا شکار رہا۔ جب بھی وقت کا پردہ سرک گیا تو حالات اس کی تصویر بن چکے تھے۔
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
اکہتر برس انہی مغالطوں اور سرابوں کی نذر ہوگئے۔ ایک امید ٹوٹی تو دوسری بندھ چلی۔ ایک منظر دھندلا گیا تو دوسرے کا انتظار شروع ہو گیا۔ خواب دیکھنے پر نہ تو کسی کا یارا ہے اور نہ کوئی پابندی مگر آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے لیے ابھی امید کے اس غیر مختتم دائرے سے باہر آنے کا وقت نہیں آیا۔