حق اور حقوق کی بات کرتے ہیں سبھی مگر

360

کراچی میں کچرا چننے والے تین بچے ایک نالے میں گر کر ہلاک ہوگئے‘ بہت ہی افسردہ کردینے والی یہ خبر آج پانچ روز گزر جانے کے بعد بھی تعاقب کر رہی ہے‘ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا سایہ ڈھونڈ رہی ہے مگر معاشرہ‘ جی ہاں سارا معاشرہ خاموش ہے۔ یہ بچے کون تھے کس کے جگر کے ٹکڑے تھے اس مادہ پرست دنیا میں کوئی نہیں جانتا‘ یہاں حقیقی معنوں میں دو پہلو ہیں‘ مستحق‘ غریب نادار اور مفلس افراد ان کے مقابلے میں پیشہ ور گداگر‘ اسلام آباد میں ہر روز ایک منظر ہوتا ہے صبح صبح ایک وین آتی ہے جو خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں سے لدی ہوتی ہے یہ وین انہیں شہر کے مختلف چوراہوں میں اتار دیتی ہے اور شام کو انہیں واپس لے جاتی ہے‘ یہی لوگ سارا دن چوک چوراہوں میں بھیک مانگتے رہتے ہیں اور اصل فائدہ انہیں کم ان کے ٹھیکیدار کو زیادہ ہوتا ہے‘ یہ ٹھیکیدار کون ہے‘ اس کے سرپرست کون ہیں اور شہر میں پیشہ ور گداگروں کا گروہ کیوں نہیں پکڑا جاتا‘ یہ سب سوالات شہر کی انتظامیہ کی گردن پر ہیں۔
کراچی میں نالے میں گر کر ہلاک ہوجانے والے کچرا چننے والے بچے‘ کون تھے؟ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو ضرور ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا ورنہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے بھی ایک روز اسی نالے میں ڈوب جائیں گے جس میں ان بچوں نے گر کر جان دی ہے‘ ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی سوچا کہ ہمارے ہاں روز بروز کچرے کے ڈھیر اور آلودگی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ غلاظت کے یہ ڈھیر ہمارے معاشرے کے ایک طبقہ کے لیے روز گار کا ذریعہ ہیں‘ اور کیا ایک کروڑ نوکریوں میں یہ بچے بھی شمار کیے جارہے ہیں؟ کس قدر افسوس ناک منظر ہے کہ صبح صبح تھیلا اْٹھائے چار سال کا بچہ منہ دھوئے بغیر اپنی جھگی سے نکلے اور کچرے کے ڈھیر پر پہنچ جائے تاکہ رزق اور روزگار تلاش کرسکے روٹی، کپڑا اور مکان کی دعویدار حکومت شاید کراچی سے اسی لیے کچرا نہیں اٹھا رہی کہ کہیں یہ بچے ’’رزق اور روزگار‘‘ سے محروم ہی نہ ہوجائیں اور اسی لیے تو مقامی حکومت سے متعلق ریاست مدینہ کے حکمران نے کہا ہے کہ یہ نفیس لوگ ہیں۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں‘ زمین پر پاؤں رکھو تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ اقبال کا شاہین ہر روز رزق کے لیے کچرے کے کتنے ڈھیر چھان مارتا ہے اور اسی رزق کی تلاش میں نالے میں جاگرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی کیوں ان بچوں کے لیے آواز بلند نہیں کرتا۔ اقبال کا وہ شعر ہمارے حکمرانوں کو کیوں کوئی یاد نہیں کرواتا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
ہم جن ستاروں کو آج پتھر بننے کے لیے کچرے کے ڈھیر فراہم کر رہے ہیں کل وہ ہماری قوم کے ماتھے کو لہو لہان کریں گے۔ اپنے بچوں کو تو جانور بھی سنبھال لیتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے ہمیں کیا ان بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں۔
ہمارے ہاں میڈیا بھی گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں کو تو دکھاتا ہے لیکن ان غلاظت سے لتھڑے اجسام کو ہر کوئی فراموش کر دیتا ہے۔ جو انسان ہو کر انسانیت کی دہلیز سے کہیں دور رہتے ہیں۔ کیا یہ مسلمان نہیں۔ کیا یہ قوم کے معمار نہیں بن سکتے۔ ان کے لیے احتجاج کون کرے گا ہمارے معاشرے کے ان بچوں کے لیے اچھا ماحول کون فراہم کرے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی سیڑھی نہیں لٹکائے گا۔ ہمیں اور آپ ہی کو ان بچوں کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی اگر ایسا نہ کیا تو یہ بچے کل کے چور، ڈاکو اور لٹیرے ہی بنیں گئے۔ ان کے ایسا ہونے کے ذمے دار ہم ہی ہوں گے۔
ایک اور خبر بھی ہماری توجہ چاہتی ہے عدالت عظمیٰ میں ان دنوں معذور افراد کے لیے سرکاری محکموں میں ملازمتوں سے متعلق ایک کیس کی سماعت ہورہی ہے عدالت عظمیٰ نے کچھ سوالات کے جواب مانگے ہیں مگر جواب دینے کے بجائے بیوروکریسی نے ملک میں معذور افراد کی فلاح کے لیے کام کرنے والی قومی کونسل برائے بحال�ئ معذوراں ہی کو ختم کرنے کی سفارش کردی۔ تفصیلات کے مطابق چند ماہ سے عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں عدالت عظمیٰ کے روبرو یہ معاملہ زیر سماعت ہے کہ ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہود کے لیے حکومت کی سطح پر کیے جانے والے کام اور اقدامات کی تفصیلات کیا ہیں؟ اس مقدمے کی سماعت کے موقعے پر وزارت تعلیم کے سیکرٹری اور اس کونسل کے بر بنائے عہدہ چیئرمین ارشد مرزا متعدد بار عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہوچکے ہیں اور عدالت عظمیٰ کو سرکاری سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے باقاعدہ آگاہ بھی کر چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے وفاق کی سطح پر تمام وزارتوں اور محکموں سے یہ تفصیلات طلب کی ہیں کہ ان کے محکموں میں کام کرنے والے معذور افراد کی تعداد کیا ہے اور یہ سوال اس لیے اٹھایا گیا کہ حکومت نے اس کونسل کے ضابطے کے مطابق ہر سرکاری محکمے میں ملازمین کی کل تعداد کے دو فی صد کے برابر قانونی طور پر معذور افراد کا کوٹا طے کررکھا ہے اور عدالت عظمیٰ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس پر عمل درآمد کی تفصیلات کیا ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے تمام وفاقی سیکرٹریوں کو ایک سرکلر کے ذریعے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی وزارت اور محکمے میں معذور افراد کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم کریں لیکن وفاقی سیکرٹریوں کے ماہانہ اجلاس میں معذور افراد کی فلاح کے لیے کام کرنے والے قومی کونسل برائے بحال�ئ معذوراں ہی کو ختم کردینے کی سفارش کردی گئی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارش پر یہ کونسل ختم کرکے ملک بھر کے لاکھوں معذور افراد کو بے یارو مددگار چھوڑنا کہاں کا نصاف ہوگا۔