دین میں جبر نہیں ہے

612

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی جبر نہیں ہے، بے شک ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے، پس جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، تو اُس نے ایسی مضبوط رسی کو پکڑ لیا، جسے ٹوٹنا نہیں اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے، اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے، وہ انہیں (کفر وضلالت) کے اندھیروں سے (ایمان وہدایت کے) نور کی طرف نکالتا ہے اور جنہوں نے کفر کیا، اُن کے حمایتی شیطان ہیں، وہ انہیں (ایمان کے) نور سے (کفرکی) ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے، (البقرہ: 256-257)‘‘۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا حکم بالکل واضح ہے کہ کسی پر دینِ اسلام قبول کرنے کے لیے زور زبردستی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے اور اگر کوئی زبردستی تسلیم بھی کرلے، مگر اس کے دل میں ایمان نہیں ہے، تو یہ تسلیم معتبر نہیں ہے اور آخرت میں فیصلہ محض ظاہری علامات پر نہیں ہوگا بلکہ تصدیقِ قلبی پر ہوگا۔ برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غیر مسلموں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی پورے جنوبی ایشیا میں غیر مسلموں کی آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
اسلام تسلیمِ محض نہیں، بلکہ تسلیم بالرضا کا نام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے، (اے رسول!) کہہ دیجیے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو اللہ تمہارے (نیک) اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے، درحقیقت مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے (کبھی اس میں) کوئی شک نہیں کیا اور انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں، (الحجرات: 14-15)‘‘۔
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو تجارتی قافلے سے ٹکراؤ کے بجائے بھرپور جنگ کی ابتلا سے گزارنے کی حکمت قرآنِ کریم نے یہی بتائی: ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ظاہر ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے، (الانفال: 42)‘‘۔ یعنی معرکۂ حق وباطل بپا ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ کون اپنے موقف پر عزیمت کے ساتھ قائم ہے اور ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔ ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے، اس لیے دنیا کے ممالک میں تبدیلیِ مذہب کا کوئی قانون نہیں ہے، ایسے بے معنی تجربات صرف ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں کہ سندھ اسمبلی نے تبدیلیِ مذہب کا قانون بنایا اور اس کے لیے اٹھارہ سال عمر مقرر کردی، ہمیں اس کا فلسفہ آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر کوئی دس برس کی عمر میں کفروشرک اور بت پرستی کو ترک کرکے دینِ توحید کو قبول کرنا چاہتا ہے اور کلمۂ ایمان پڑھنا چاہتا ہے، تو اسے کیوں روکا جائے، کیا ہم اسے مجبور کریں گے کہ اٹھارہ برس کی عمر تک وہ کفر پر قائم رہے اور پھر اس کی مرضی ہے تو توحید ورسالت کی گواہی دے کر اسلام میں داخل ہوجائے، جنابِ والا! رضا علی الکفر، کفر ہے، یہ فتوے کی بات نہیں ہے، ایک حقیقت ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے فلسفی یا دانشور ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہاں اگر آپ نے کوئی سرٹیفکیٹ یا لائسنس دینا ہے، تو آپ کی مرضی، اٹھارہ سال کی عمر میں جاری کردیجیے، لیکن جہاں تک بندے اور ربّ کا معاملہ ہے، ایمان لانے کے لیے کسی حکومتی سرٹیفکیٹ یا لائسنس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آتا ہے، تو ہم اُسے شریعت کے مطابق توبہ کراکے اسلام میں داخل کرتے ہیں، اس میں قانون کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، البتہ اگر اُسے سرٹیفکیٹ چاہیے اور وہ عاقل وبالغ ہے، تو ہم کہتے ہیں: فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوکر بیان دیں کہ میں عاقل وبالغ ہوں اور اپنی آزادانہ مرضی سے اسلام قبول کر رہا ہوں اور مجسٹریٹ اس کی تصدیق کرے، تو ہم بھی اُسے سرٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں، لیکن اللہ کی عدالت کے لیے ہمارے یا کسی عدالتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ بندوں کے ظاہر وباطن کو خوب جاننے والا ہے، مصحفی نے کہا تھا:
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جُنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
چنانچہ ہم بھی بحیثیتِ قوم کچھ تو ’’خود ملامتی‘‘ واقع ہوئے ہیں اور کچھ دوسروں نے ہمیں ایسے دباؤ میں رکھا ہوا ہے کہ گویا ہمارا ہر قول وفعل غلط ہے، ہم ناقابلِ اعتبار ہیں، ہمارا ہر بیان مشتَبہ ہے اور ہم اس بیرونی دباؤ کو قبول کرتے ہوئے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں، بزعمِ خویش ہمارے آزاد وخود مختار میڈیا کے لیے ایسے واقعات ہاٹ کیک ثابت ہوتے ہیں اور اُن کی ریٹنگ بڑھ جاتی ہے۔ ساری داستان ذاتی خیالات اور مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے، کسی تحقیق کے بغیر طے کردیا جاتا ہے کہ فلاں کو جبراً اسلام میں داخل کیا گیا ہے، اِغوا کرکے یہ کام کیا گیا ہے، اس لیے سب لوگ گردن زدنی ہیں۔ حالاں کہ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے تحقیق کرلو، اس کے بعد رائے قائم کرو اور اس پر مبنی فیصلے صادر کرو۔ اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام قبول کرنا بہت بڑا جرم ہے، پچاس چینل فریاد کُناں ہیں اور بچاؤ بچاؤ کی دہائی دے رہے ہیں، جبکہ اسلام کی رُو سے کسی کا اسلام قبول کرنا اور اُس میں مُمِدّو معاون ہونا بہت بڑی سعادت ہے، حدیثِ پاک میں ہے:
’’سیدنا سہل بن سعد بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے (غزوۂ) خیبر کے دن فرمایا: میں کل جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کا رسول اُس سے محبت فرماتے ہیں، اللہ اُس کے ہاتھوں پر خیبر کو فتح فرمائے گا، لوگوں نے (اس فکر میں) رات گزاری کہ یہ اعزاز کسے ملتا ہے، پس صبح ہوئی تو ہر ایک اس کی آس لگائے بیٹھا تھا، آپ ؐ نے فرمایا: علی کہاں ہے، آپ کو بتایا گیا کہ انہیں آشوبِ چشم کا عارضہ ہے، آپ ؐ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایا، اُن کے لیے (صحت کی) دعا کی تو (آپ کے لعابِ مبارک اور دعا کی برکت سے) وہ ایسے صحت یاب ہوئے کہ گویا انہیں کوئی بیماری لاحق ہی نہیں تھی، آپ ؐ نے انہیں جھنڈا دیا، سیدنا علی نے پوچھا: میں اُن سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں (یعنی اسلام قبول کرلیں)، آپ ؐ نے فرمایا: تم باوقار انداز میں چلتے رہو یہاں تک کہ تم اُن کے صحن میں اتر جاؤ، پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور (اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو) انہیں بتاؤ کہ (اسلام کے کون کون سے احکام) اُن پر واجب ہیں، پس اللہ کی قسم! اگر اللہ آپ کے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے، تو یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں کی (گراں بہا) دولت سے بہتر ہے، (بخاری)‘‘۔ اگر سب مفتوحین اور مغلوبین کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا ہوتا، تو آپ ؐ ایک شخص کا ذکر نہ فرماتے۔ اس حدیثِ مبارک میں اسلام کی دعوت دینے اور اس کی ترغیب دینے کا ذکر ہے۔ اگر کوئی خوش نصیب
بطیبِ خاطر اور برضا ورغبت اسلام قبول کرلے تو پھر اُسے اسلامی احکام کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔ اسلام نے مفروضوں پر رائے قائم کرنے اور تحقیق کے بغیر خبر پر ردِّعمل ظاہرکرنے سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو (ردِّعمل ظاہر کرنے سے پہلے) خوب تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم انجانے میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو (اور) پھر تمہیں اپنے کیے پرشرمندہ ہونا پڑے، (الحجرات: 6)‘‘۔
یہ سوال حق بجانب ہے کہ ہمارا میڈیا اس آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ اللہ کی ہدایت کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے اور کسی تحقیق اور اس کے نتائج سامنے آنے سے پہلے حکم صادر فرما دیتا ہے، فتویٰ جاری کردیتا ہے، آپ اہلِ فتویٰ کے فتاویٰ پر تو آئے دن پابندی کی تحریک چلاتے رہتے ہیں اور آپ کو یہ فری لائسنس کس نے دیا ہے کہ تحقیق کے بغیر جب چاہیں اور جو چاہیں فتویٰ لگادیں، آپ کو Licence to kill کا یہ اختیار کہاں سے ملا ہے، یہ اختیار آپ نے آئین کے کس آرٹیکل اور قانون کی کس دفعہ سے حاصل کیا ہے، ذرا ہمیں بھی بتا دیجیے، ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ: ’’وزارتِ بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ میں ایک باقاعدہ سیکشن بنایا جائے اور اس میں سرکاری عُمّال کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے معتَمد نمائندوں کو شامل کیا جائے اور اس طرح کے کسی بھی واقعے کی وہاں پر آزادانہ تحقیق ہو اور پھر اس کے نتائج کا قومی سطح پر اعلان کیا جائے، اگر جبر واکراہ اور ظلم ثابت ہو تو اس کے لیے تعزیر مقرر کی جاسکتی ہے۔ لیکن آج کل تو عدالت عظمیٰ سے ہم روز سنتے ہیں کہ جھوٹے الزام کا راستہ بند کیا جائے، یہ طریقۂ کار آسان ہے، جب کہ عدالتوں کا طریقۂ کار ضوابط کے تابع ہوتا ہے، اس میں وکلا کی طولانی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں، باہر سے سیاسی دباؤ ہوتا ہے، جبکہ ہماری تجویز بآسانی قابلِ عمل ہے۔ میں مختلف مواقع پر ایک سے زائد مرتبہ ہندو اور مسیحی رہنماؤں کو پیش کش کرچکا ہوں کہ اگر کسی معاملے میں ثبوت وشواہد سے جبر ثابت ہوجائے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ نیز میں ہر فورم پر یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ اقلیت کی اصطلاح ممنوع قرار دی جائے، ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمارا آئین وقانون سب کو تحفظ دیتا ہے، آپ اپنے آپ کو غیر مسلم پاکستانی کہیں، کیوں کہ اقلیت کی اصطلاح سے محرومی کا تاثر پیدا ہوتا ہے، جبکہ غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح سے اپنی قوم اور وطن پر ایک اونر شپ پیدا ہوتی ہے، آپ حقوق کے دعوے دار بنتے ہیں اور بیرونِ ملک پاکستان کی رسوائی بھی نہیں ہوتی۔