عدلیہ کا معیار!

283

عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ذہنی دباؤ کی وجہ سے طبی بنیاد پر 6 ہفتوں کا ریلیف دیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما اور کارکن عدالیہ کے فیصلے کو انصاف کی فتح اور اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں بعض آئینی ماہرین کا یہ استفسار بڑا معنی خیز ہے کہ کیا عدلیہ ہر قیدی کو ذہنی دباؤ سے نجات دلانے کے لیے ایسا ہی ریلیف دے سکتی ہے؟ کیوں کہ جیل میں تو ہر قیدی ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس معاملے میں تو آئینی ماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں مگر ہم اتنا جانتے ہیں کہ ذہنی دباؤ، شوگر اور بلڈ پریشر بظاہر عام سی بیماریاں ہیں مگر انتہائی خطرناک اور مہلک ہیں اگر کوئی شخص ان کے جان لیوا حملے سے جاں بر ہو بھی جائے تو عمر بھر کے لیے معذور ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو قوت گویائی سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ ذہنی دباؤ بلڈ پریشر کا سبب بنتا ہے اور بلڈ پریشر برین، ہیمبرج کی وجہ بنتا ہے۔ شوگر لیول کم ہوجائے تو مریض ناگہانی موت کا شکار ہوجاتا ہے کیوں کہ شوگر کم ہونے سے فوری طور پر ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ یہاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک مقبول سیاست دان ہیں، اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ان کا دل اس پُروقار اور دل پزیر عہدے سے نہیں بھرا وہ تاحیات وزیراعظم رہنے کے جنون میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ان کی خواہش کا محور وزارت عظمیٰ ہی تھی اس خواہش پر ان کا دم تو نہ نکلا مگر ناک میں دم آگیا۔
پیپلز پارٹی کے معروف رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ان کی پچاس سالہ عدالتی زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ موصوف نے اس فیصلے کو عدالتی ’’نرم دلی‘‘ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ عدالتیں شریف برادران کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں، ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں جس کی آڑ میں ریلیف دیا جاسکتا ہو۔ چودھری صاحب بھول رہے ہیں ان کے قائد آصف علی زرداری کو نیب نے نہ صرف ریلیف دیا بلکہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات ہی کو ’’کڈنیب‘‘ کرلیا۔ عدالتیں شک کی بنیاد پر ملزم کو چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے مگر ہماری عدالتوں کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ مقتدر طبقے کو ریلیف بھی دے دیتی ہیں، عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرکے کوئی خلاف واقعہ اقدام نہیں کیا ہے۔ عدالتیں پیرول پر بھی رہائی کے احکامات جاری کرتی رہتی ہیں ہم قانون کے ماہر نہیں اس لیے عدالتی ریلیف اور پیرول میں فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں مگر اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہیں کہ غریب آدمی کو شخصی ضمانت پر اور صاحب ثروت کو ذاتی مچلکوں پر رہائی کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے۔
اعتزاز احسن صاحب کہتے ہیں کہ ذہنی دباؤ کی بنیاد پر عدالت نے پہلی بار ضمانت پر رہائی کا حکم دیا ہے اگر ان کی پیشانی شکن آلود نہ ہو تو ہم ذہنی دباؤ کے دباؤ میں آکر خودکشی کرنے والے ایک رینجرز کے سپاہی کا واقعہ سنانا چاہیں گے۔ ڈیرزٹ رینجرز بہاولپور کے ایک سپاہی نے خودکشی کرلی اس کے والد نے ڈائریکٹر رینجرز کو درخواست دی کہ اس کے بیٹے نے خودکشی نہیں کی اسے قتل کیا گیا ہے۔ جنرل صاحب نے درخواست دہندہ کو طلب کرلیا اور کہا، تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارے بیٹے کو قتل کیا گیا ہے، شواہد کے مطابق تمہارے بیٹے نے سرکاری بندوق سے خود کو ہلاک کیا تھا۔ مرحوم سپاہی کے والد نے کہا۔ جناب! میرا بیٹا ذہنی دباؤ میں مبتلا تھا اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادویات استعمال کررہا تھا اس نے آخری خط میں لکھا تھا کہ حوالدار میجر نے اس سے کہا کہ تم بہت دنوں سے بیمار ہو، سخت ڈیوٹی نہیں کرسکتے اس لیے تم بٹ مینی کرو مگر میرے بیٹے نے بٹ مین بننے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ ملک کی خدمت کرنے کے لیے بھرتی ہوا ہے، کسی افسر کے بوٹ پالش کرنے کے لیے نہیں، اس کی بات پر غور کرنے کے بجائے اسے ایسی پوسٹ پر تعینات کردیا گیا جہاں تپتی ریت اور جھلسا دینے والی ہوا نے اس کا استقبال کیا، وہ اس سفاک رویے سے اتنا بد دل ہوا کہ اس نے خود کو ہلاک کر ڈالا۔ جنرل صاحب نے اس کی بات سن کر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ تشکیل دیا جنہوں نے اس موضوع پر طبی نکتہ نظر سے غور و خوض کرنے کے بعد رائے دی کہ ایسے حالات میں خودکشی کا مرتکب ہونا قابل تعزیر نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ذہنی دباؤ مریض پر حاوی ہو کر اسے خودکشی پر مجبور کرسکتا ہے۔ اس رائے کی بنیاد پر مرحوم سپاہی کو پنشن کا مستحق قرار دیا گیا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا دیگر قیدیوں سے تقابلی جائزہ لینا مناسب نہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ اعتزاز احسن کی رائے کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ عدلیہ سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانے پر عدالت نے سزا سنائی تھی اور لگ بھگ ایک ہفتے بعد رہا کردیا تھا۔