نور چشم بلاول زرداری کے والد بزرگوار آصف علی زرداری جن دنوں پاکستان کے صدر تھے انہیں ایک پیر صاحب کی خدمات حاصل تھیں جن کی پھونکیں جی ایچ کیو کے مقابل زرہ بکتر کا کام دیتی تھیں۔ پاکستان میں حکومتی اختیار ایسی شلوار ہے جس کا ایک ہی پائنچہ ہے۔ جس میں فوج کسی سویلین کو ٹانگ گھسانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس شلوار میں ٹانگ ٹھونسنے کی کوشش کرتے کرتے جب صدر صاحب تھک جاتے تو اسلام آباد سے کراچی نقل مکانی کرتے۔ ان مواقع پر وہ بزرگ کار کے اطراف پھیرے لگاتے، انجن پر پھونکیں مارتے نظر آتے تھے کہ کہیں یہ نابکار دھوکا دے کر الطاف بھائی کی طرف نہ نکل جائے۔ کتاب خاص طور پر مذہبی کتاب لکھنے کی صورت میں اہل کتاب کو بھی کاش کسی ایسے ہی کسی پیر کی خدمات بابرکات حاصل ہوتیں۔ کتاب کی مارکیٹنگ کے لیے نہیں۔ کتاب کی بنا تقریظ شہرت اور پسندیدگی کے لیے۔ جب پیر صاحب سابق صدر محترم کی کار پر پھونکوں کی بھول بھلیوں میں منہمک ہوتے ان کی حرکتیں دیکھنے میں ہم اتنے مستغرق ہوجاتے تھے کہ ہمیں چم چماتی کار نظر نہیں آتی تھی۔ بنا کسی مشہور عالم دین کی تقریظ (کتاب اور صاحب کتاب کی تعریف) کتاب بھی کسی کو نظر نہیں آتی۔
ایک عرصے سے ہمیں کتاب لکھنے کا ہوکا تھا۔ خواہش حد سے بڑھی تو کئی برس کی محنت کے بعد کتاب کی سر خوشی میں متشکل ہو گئی۔ ہم ایک دینی ادارے سے منسلک ہیں۔ جہاں دینی اور عصری علوم کا مکسچر پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں دینی علوم کو زیادہ خلوص اور تپاک حاصل ہے لہٰذا عصری علوم کا استاد ہونے کے باوجود ہماری کتاب دینی تھی۔ مسودہ اشاعت کے لیے ایک پبلیشر کی خدمت میں پیش کیا۔ پبلیشر صاحب نرے پبلیشر ہی نہیں ایک محبتی انسان اور ہمارے دوست بھی ہیں۔ امید تھی کہ جہاندیدہ انسان ہیں، سیکڑوں کتا بیں شائع کرچکے ہیں، ابتدائی سطریں پڑھتے ہی اٹھ کر ہمیں جھپی ڈال دیں گے اور کہیں گے۔ ’’اس کتاب سے پہلے تھا عجب ہمارے جہاں کا منظر‘‘۔ لیکن وہاں تو عالم ہی دوسرا تھا۔ ورق گردانی کے نام پر صفحات سے چہرے پر ہوا کرتے ہوئے بولے ’’اسے پڑھے گا کون‘‘۔ حاشا وکلا یہ سوال ہمارے خیال میں بھی نہیں تھا۔ عرض کی ’’کتاب اتنی لغو اور نامعقول تو نہیں‘‘۔ بولے ’’یہ بات نہیں، جس طرح وکٹوں کے پیچھے حالت رکوع میں کھڑے رہنے سے کوئی وکٹ کیپر نہیں بن جاتا اسی طرح بناکسی عالم کی تقریظ کے کوئی دینی کتاب اعتبار حاصل نہیں کرسکتی۔ بنا تقریظ کتاب چھپ توجائے گی لیکن قاری میسر آجائیں یہ خیال است ومحال است وجنوں‘‘۔
پبلیشر کے مشورے کے بعد اساتذہ کے نگران اپنے ادارے کے ایک بزرگ کی خد مت میں مسودہ پیش کیا تو بولے ’’میاں آپ عالم نہ کسی عالم کے صاحبزادے، نہ کسی دینی ادارے سے فیض یاب، خدا جانے کیا انٹ شنٹ لکھ دیا ہوگا۔ ایسا نہ ہو جیسا کہ آپ کی ہوس ہے، جنت کے بجائے یہ کتاب وصل جہنم کا سبب بن جائے۔ آپ کی پریشاں نظری، طنزیہ فقروں اور اناڑی پن کو پہلے ہی مسلمان کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ سوچ کر کہ بڑھاپے اور ٹھرک پنے کی جس منزل پر آپ ہیں، ماہ وسال کی چند کروٹوں کے بعد فرشتے خود ہی (آہنی گرزوں سے) آپ کی اصلاح کردیں گے، اس لیے دل پر ہزار خرابی کے باوجود ہم نے آپ کی نادانیوں پر توجہ مرکوز نہیں کی۔ طلبہ کو اردو اور سائنس پڑھاتے وقت آپ جو چلبلے فقرے اور اشعار پڑھتے ہو طلبہ کا ہیاؤ کھلتا جارہا ہے۔ گھنٹوں رومانٹک موڈ میں رہتے ہیں۔ صرف نحو کے استاد شکایت کررہے تھے کہ طلبہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘۔ کے بارے میں استفسار کررہے تھے کہ یہ ماضی قریب کا معاملہ ہے یا ماضی بعید کا، یہ ماضی تمنائی ہے، ماضی ناتمام یا ماضی ناگفتنی۔ آپ شادی شدہ ہیں، کیا ضرورت ہے رومانٹک اشعار پڑھنے کی زوجہ سے مل لیا کرلیا کریں۔ جس طرح مزے لے لے کر آپ اشعار کی شرح بیان کرتے ہیں لگتا ہے چٹور پنے سے حلوہ کھارہے ہیں۔ اشعار سرسری پڑھ دیا کریں نوالہ چبائے بغیر جس طرح حلق سے اتارا جاتا ہے۔ سائنسی اصول بھی آپ بہت وضاحت سے پڑھاتے ہیں۔ طلبہ قم باذن اللہ سے زیادہ لیزر اور آلات جراحی میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ایک بات اور ہے آپ کے پریڈز کے دوران طلبہ ایسے ڈرے اور سہمے ہوئے نظر نہیں آتے جیسا کہ دینی طلبہ کا شعار ہے۔ دینی علوم کی تدریس کے دوران وہ سر دھننے اور جھومنے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔ طلبہ میں عقیدت نہ ہو تو اساتذہ کا علمی غبار محض دھواں بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک بدعت یہ رواج پاتی جارہی ہے کہ طلبہ اساتذہ سے سوال اور بے تکلفی سے باتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ بحث مقصود نہیں بس گزارش یہ ہے کہ دینی اداروں کا مزاج سمجھیے۔ اثنائے گفتگو کبھی کبھی آپ ہکلانے لگتے ہیں جس سے لسانی ہنگامہ سا برپا ہوجاتا ہے۔ مفہوم ناگہانی موت سے ہم کنار ہونے لگتا ہے۔ یہ سب گوارا، یہ سب برداشت لیکن دینی کتاب میں کسی بھی طرح کی ہکلاہٹ برداشت نہیں کی جاسکتی لہٰذا بہتر یہ ہے کہ مسودہ پہلے کسی دارلافتاء کے حوالے کردیجیے تاکہ وہ جانچ سکیں کہ آپ نے کہاں کہاں لغو اور پوچ باتیں کہیں اور لکھیں ہیں۔ اس کے بعد تقریظ کے لیے کسی عالم کو پریشان کیجیے گا‘‘۔
مسودہ دارلافتا کے بزرگوں کی خدمت میں پیش کیا تو کثرت پاکبازی کئی ہفتے تو انہوں نے اسے چھونا بھی گوارا نہیں کیا۔ ہم نے پڑھنے کی درخواست کی تو ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بغیر گنگا نہائے آپ نے اس کوچے میں قدم کیسے رکھا۔ اس کوچے میں صحافی جیسے بد چلن کا گزر!!! ایک ثقہ اور پرہیزگار نوجوان بزرگ گویا ہوئے ’’بھئی بات یہ ہے کہ صحافیوں کے چال چلن کا کچھ ٹھیک نہیں۔ قسطوں پر مال مفت کی طرح الیکٹرونک آئٹم بانٹنے والے بھی صحافیوں اور وکلا کو دیکھ کر ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ سچی جھوٹی خبریں اور رپورٹس مسلسل پڑھنے اور لکھنے کے نتیجے میں حق وصداقت کو جانچنے اور پرکھنے کا صحافی حضرات کا کوئی معیار ہے اور نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ شہر بھنبور لٹ جائے یا جل جائے، سسی بے خبر ہو یا با خبر صحافیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ تو بس یہ دیکھتے ہیں کہ خبر دوکالمی بنے گی یا تین اور چار کالمی۔ دینی علوم اسپورٹس اور اسٹاک مارکیٹ کی خبریں نہیں جنہیں لا پروائی سے بیان کردیا جائے۔ یہ سر کاری اعداد وشمار ہیں اور نہ اقوام متحدہ کی رپورٹیں جن میں صداقت سے زیادہ بدلتے اہداف نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہم نے عرض کی ’’حضور بجا ارشاد فرماتے ہیں جس پیشے سے ہم منسلک ہیں اس سے گندی اور بدبودار مٹی اس عالم میں کہیں نہ پائی جاتی ہوگی لیکن اب جب کہ عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک خوش نما پھول کی صورت ہم اس بدبو دارمٹی کا قرض ادا کردیں۔ پھر ہم نے اپنے پاس سے کچھ نہیں لکھا حضرت تھانوی کے ایک کتابچے کی تسہیل کی ہے‘‘۔ غصے سے بولے ’’تو اب حضرت تھانوی پر یہ وقت آگیا کہ جہلا ان کی تصحیح کریں گے‘‘۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’حضور تصحیح نہیں تسہیل‘‘۔ بولے ’’پھر ٹھیک ہے لیکن یہ کارنامہ نہ ہی انجام دیتے تو بہتر تھا۔ باہر والوں کا یہاں کام نہیں۔ بڑے بڑوں کو یہاں سند قبولیت نہ مل سکی آپ کی تو اوقات ہی کیا ہے‘‘۔
ہم محسوس کررہے تھے کتاب نہیں لکھی ہم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ دینی علوم کی چمن بندی اور آبیاری دکھی انسانیت کی خدمت کی طرح نہیں ہے جہاں ہر خوار و خراب وخستہ عزت حاصل کرسکے۔ یہ عمر کے کسی حصے کا شوق اور کھلونے کی طلب بھی نہیں کہ ہر کسی کے ہاتھ میں تھمادیا جائے۔ یہ جہان کئی صدیوں سے دشمنوں اور اپنوں کی سازشوں اور حملوں کا مقابلہ کرتے کرتے اتنا زود حس ہوچکا ہے کہ اسے کسی کی دلجوئی کی ضرورت رہی ہے اور نہ مدد کی۔ یہاں لوگ اتنے بھیس بدل بدل کر داخل ہوچکے ہیں، قیاس اور تخمین کے ایسے ایسے زہریلے پھول کھلا چکے ہیں کہ علماء کرام اگر اس حساسیت کا مظاہرہ نہ کرتے تو دین مبین کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہوتا۔