7اپریل 2019: امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹو یٹ میں اپنی خوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہا ’’اب ہمارا افغانوں کے ساتھ ایک تسلسل بن گیا ہے جن کا تعلق مختلف جماعتوں اور معاشرے کے مختلف طبقات سے ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ مرد خواتین، نوجوان اور زیادہ عمر کے لوگ، دوحا میں ہونے والی بات چیت میں حصہ لیں گے اور پھر مذاکرات میں بھی شامل ہوں گے‘‘۔ زلمے خلیل زاد کی جانب سے اطمینان کا یہ اظہار ان کے دو روزہ دورہ اسلام آبادکے بعد سامنے آیا۔ امریکا افغانستان پر حملے کے بعد سے طالبان کی متبادل قوت کی تلاش اور تخلیق میں ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی لیکن یہ حکومت کابل سے باہر اپنا وجود نہیں رکھتی۔ گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان مذاکرات میں گاہے ایسی خبریں سامنے آئیں کہ فریقین کسی نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اور معاہدہ عن قریب متوقع ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کے کسی محفوظ اور باعزت راستے کی تلاش میں ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ امریکا افغانستان سے مکمل نہیں جزوی انخلا چاہتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی صورت افغانستان میں اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان اور طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں کے لیے یہ لمحہ فکر تھا کہ کہیں طالبان کسی دام فریب میں آکر میدان جنگ کی جیتی ہوئی بازی مذاکرات کی میز پر نہ ہار جائیں۔ اسی دوران طالبان کی طرف سے افغانستان میں ایک بڑا حملہ بھی سامنے آیا جس میں بڑی تعداد میں امریکی اور افغان سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی مذاکرات کا یہ مرحلہ اختتام پزیر ہوا۔ تاہم افغانستان میں طالبان کے متبادل کی امریکی تلاش جاری ہے تاکہ افغانستان میں من پسند نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ زلمے خلیل زاد کا حالیہ بیان اسی تلاش کا اظہار ہے۔ یہ سب کچھ حکومت پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ عمران خان جس کا ظاہری چہرہ ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے زلمے خلیل زاد کی کوششوں کو تقویت فراہم کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے اور یہ کردار اتنی طاقت اور بھر پور طریقے سے ادا کیا گیا ہے کہ گزشتہ مہینے ایک امریکی اہلکار نے اعتراف کیا تھا کہ پاک امریکا تعلقات جتنے آج مضبوط ہیں گزشتہ اٹھارہ برس میں کبھی نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ پاکستان افغان طالبان کو گھیر گھار کر جس طرح مذاکرات کی میز پر لایا تھا۔ وہ افغان جہاد سے ایک بڑی غداری اور امریکا کی عظیم خدمت تھی۔
اسی دوران عمران خان کی حکومت نے بھارت اور امریکا کے دباؤ پرکالعدم تنظیموں کے خلاف بھی ایکشن شروع کردیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ ان معاملات پر عوام ردعمل دیتے، یہ موضوعات میڈیا میں زیر بحث آتے، یہ جھوٹی خبر وضع کی گئی کہ 16 مارچ کو امریکا سے عافیہ صدیقی کی رہائی عمل میں آرہی ہے۔ یہ ایک جھٹکا تھا۔ سب حیران تھے۔ پس منظر یہ بیان کیا گیا کہ یہ سب عمران خان کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں کا حاصل تھا جس نے طالبان سے امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں عافیہ صدیقی کے معاملے کو بھی شامل کرنے پر زور دیا تھا۔ ہر طرف عمران خان کی جے جے ہوگئی۔ افغانستان کے معاملات، کالعدم تنظیموں پر پابندی لوگ سب کچھ بھول گئے۔ یہ عوام کے جذبات کے ساتھ انتہائی بے دردی کے ساتھ کھیلا گیا کھیل اور مکر کی ایک چال تھی۔
وزیر خزانہ اسد عمر کا حا ل سائیکل کے اس مستری جیسا ہے جو ٹریکٹر کا انجن کھول بیٹھا ہو۔ معیشت کو سدھارنے کے لیے جادو تو کجا ان کے پاس کوئی عمومی پلان بھی نہیں ہے۔ عمران خان کے پاس بھی ملکی مسائل کے حوالے سے کوئی پلان اور منصوبہ نہیں ہے۔ پلان تو درکنار ان کے پاس سرے سے کوئی فکر اور نظریہ ہی نہیں ہے۔ وہ ایک منتشر آدمی ثابت ہوئے ہیں۔ جسے نہ کل فکر تھی اور نہ آج فکر ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ زرداریوں اور شریفوں کی کرپشن کے قصوں میں اب عوام کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں۔ لوگ ان کہانیوں سے اکتا گئے ہیں۔ ایک عرصے سے وہ دعویٰ کررہے تھے کہ چوروں کی حکومت میں دس ارب ڈالر ہر سال ملک سے باہر جارہا ہے۔ عمران خان ہی کے حساب کتاب سے اب تک سات آٹھ ارب ڈالر تو ان کی حکومت نے یقیناًباہر جانے سے روک لیے ہوں گے، تو پھر ایک ایک دو دوارب ڈالر کے لیے سعودی عرب، امارات اور چین سے بھیک کیوں مانگی جارہی ہے۔ عمران خان کے تمام دعوے ایک ایک کرکے جھوٹ اور سفید جھوٹ ثابت ہورہے ہیں۔
عمران خان اور ان کی حکومت نے ان تمام ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایک حل ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ ہے عوام کو اصل ایشوز سے ہٹا کر نان ایشوز میں الجھا دینا۔ اس ماہ کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کی معیشت کے بارے میں عالمی اداروں کی جو رپورٹیں منظر عام پر آئیں وہ وحشت ناک ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک 2019 جاری کیا ہے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ رواں مالی سال اقتصادی ترقی2.9فی صد اور آئندہ سال 2.8فی صد رہے گی۔ رواں مالی سال مہنگائی 6فی صد کے بجائے 7.6فی صد رہے گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ 2020 تک پاکستان کی معاشی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی۔ مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر پر دباؤ رہے گا۔ اسی دوران اسد عمر کا بیان سامنے آیا ’’دو آپشنز ہیں دیوالیہ یا آئی ایم ایف‘‘۔ ’’سونا اور ڈالر آج پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ قرضوں میں 110ارب کا اضافہ ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے متعلق خبر چار اپریل کی ہے۔ اس خبر اور اپنی حکومت کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیے اگلے دن عمران خان نے یہ پھلجڑی چھوڑ دی کہ ایم کیو ایم سے زیادہ نفیس لوگ نہیں دیکھے۔ ایم کیو ایم اور عمران خان میں اینٹ کتے کا بیر تھا۔ جہاں تک نفاست کا تعلق ہے تو کراچی اور حیدرآباد کی دیواروں پر عمران خان کے بارے میں ایم کیو ایم کے نعرے لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ شرفا جنہیں دیکھ کر نظریں جھکا لیتے تھے۔ لوگ ابھی اس جھٹکے سے نہیں سنبھل پائے تھے کہ اس سے اگلے دن چھ اپریل سے نیب کا حمزہ شہباز کے گھر چھاپا، مزاحمت پر ٹیم واپس، گارڈز کی غنڈہ گردی، اہلکاروں پر تشدد کپڑے پھاڑ دیے۔ لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو کل تک حمزہ شہباز کی گرفتاری سے روک دیا۔ نیب کا دوسرے روز بھی رہائش گاہ پر چھاپا، کارکنوں کی مزاحمت، رکاوٹیں توڑنے کی کوشش، پولیس کے ساتھ جھڑپیں رینجرز طلب، عدالتی حکم کے بعد ٹیم 5گھنٹے بعد کی فلم شروع کردی گئی۔ 6اپریل ہی کو شاہ محمود قریشی نے 16سے 20اپریل بھارتی جارحیت کے خطرے کا امکان ظاہر کردیا۔ اس کے اگلے دن فیصل واوڈا کا پندرہ سے بیس دن میں بے تحاشا نوکریوں کی چول نے سب کو حیران کردیا۔ مس انفار میشن کے اس گرداب میں کسے یاد ہے کہ معیشت کی صورتحا ل کتنی خطرناک ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں نے پاکستان کے معاشی مستقبل اور مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے کس بھیانک مستقبل کی پیش گوئی کی ہے۔ اسے کہتے ہیں ویژن۔ مس انفارمیشن اور جھوٹ در جھوٹ کا ویژن۔ عمران خان نے کل عوام سے کیا وعدے کیے تھے اور ان کے بدلے آج وہ عوام کو کیا دے رہے ہیں، آج وہ کہاں کھڑے ہیں؟ ایک لطیفہ سن لیجیے: بیوی نے کال کی ’’خان صاحب کہاں ہیں آپ ‘‘خان نے کہا ’’گل بانو تمہیں وہ جیولری شاپ یاد ہے جہاں تمہیں ایک ڈائمنڈ سیٹ بہت پسند آیا تھا‘‘۔ بیوی: ’’ہاں یاد ہے‘‘۔ خان: ’’اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں وہ خرید سکتا‘‘۔ بیوی: ’’ہاں ہاں جان یاد ہے‘‘۔ خان: ’’اور میں نے کہا تھا جان ایک دن میں تمہارے لیے یہ سیٹ ضرور خریدوں گا‘‘۔ بیوی خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے: ’’ہاں جان مجھے سب یاد ہے‘‘۔ خان: ’’اس کے ساتھ والی دکان سے نسوار خرید رہا ہوں‘‘۔