’’کِبار‘‘ کبیر کی جمع ہے، عنوان کا معنی ہے: ’’بڑوں کی مجالس‘‘، اس سے ریاستِ پاکستان کے دو بڑے مراد ہیں، ایک چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیرِ اعظم عمران خان اور دوسرے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ۔ 29مارچ جمعۃ المبارک کے دن چیف آف آرمی اسٹاف اور اُن کے ادارے کے اعلیٰ افسران کے ساتھ علمائے کرام کی نشست ہوئی اور ہفتہ 30مارچ کو عمران خان کے ساتھ اسی طرح کی ایک نشست منعقد ہوئی، پہلی نشست کی نسبت اس میں تعداد کم تھی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی علمائے کرام کے ساتھ چند نشستیں پہلے بھی ہوچکی ہیں، وہ جب بھی مکالمے کے لیے دعوت دیتے ہیں تو طبیعت میں تناؤ معلوم نہیں ہوتا، عجلت میں نہیں ہوتے، ریلیکس رہتے ہیں اور کھلے ڈلے انداز میں بے تکلفی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ہر بات کو سنتے ہیں اور ہر بات کا جواب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان شاید زیادہ مصروف رہتے ہیں اور طویل مجلس کے عادی نہیں ہیں، اس لیے اختصار کو پسند کرتے ہیں۔ ان مجالس کی ضرورت، پسِ پردہ محرّکات اور تبادلۂ خیال کے حوالے سے چند تاثرات اور مدارس کا موقف پیشِ خدمت ہے:
اس وقت عالمی سطح پر ہمارے وطنِ عزیز کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ ہم سب کو معلوم ہیں، اقتصادی مشکلات کے سبب ہم پر کئی طرح کے بین الاقوامی دباؤ ہیں، اُن میں سے ایک پاکستان کا فائننشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ہونا ہے، یعنی ہم واچ لسٹ میں ہیں، زیرِ نگرانی ہیں، ہمیں اپنی نیک چلنی کا یقین دلاتے رہنا ہے، کیوں کہ بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارت کا اصل ہدف پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنا ہے، یہاں تک کہ کھیل کے شعبے میں بھی اُسے پاکستان کی شرکت گوارا نہیں ہے۔ دونوں بڑے اصحابِ مناصب نے حالات کی حساسیت کی جانب توجہ دلائی۔
دونوں بڑوں نے یہ واضح کیا کہ پرائیویٹ جہاد اور عسکریت کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اسے اسّی کی دہائی کی غلط حکمتِ عملی کہیں یا اُس وقت کی ضرورت، بہر حال موجودہ عالمی تناظر میں نہ اس کی گنجائش ہے اور نہ دنیا اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نے کہا: عسکریت، نفرت انگیزی، وطن دشمن اور سماج دشمن کارروائیوں اور انتہا پسندی سے دینی مدارس وجامعات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بعض مدارس میں خدانخواستہ ایسا ہورہا ہے، تو وہ معقول شواہد کے ساتھ ان کی فہرست شائع کرے، ہم ان کا ہرگز دفاع نہیں کریں گے اور ریاست وحکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ماضی کے جہادی عناصر کے ساتھ حکومت کون سی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتی ہے، یہ اُس کی حکمت ودانش، مصلحت وضرورت اور لمحۂ موجود کے معروضی حالات پر منحصر ہے، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
ایک تجویز یہ آئی کہ اس طرح کی تنظیموں کی اوپری سطح کی قیادت اگر ذہنی تبدیلی، حقائق کے ادراک یا حالات کے جبر کے تحت اپنے بعض پیروکاروں کے ساتھ اپنے ماضی سے رشتہ توڑ لیں، صدقِ دل سے نئے حقائق کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلیں تو انہیں راستہ ملنا چاہیے۔ لیکن ایک مشکل یہ ہے کہ ان کے مختلف کیڈرز میں نئے گینگ لیڈرز پیدا ہوجاتے ہیں، کیوں کہ: ’’یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے‘‘۔ افغانستان میں طالبان کے غلبے سے پہلے وار لارڈز، تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے ذیلی گروپس اس کی نمایاں مثالیں ہیں، لہٰذا یہ پانی زیر زمیں چلتے چلتے کہیں نہ کہیں اپنے ظہور کے لیے راستہ بنالیتا ہے، پس اس کے لیے صبر آزما اور طویل المدت حکمتِ عملی درکار ہوگی، درمیان میں امن کے وقفے بھی آئیں گے۔ دینی مدارس وجامعات صرف اور صرف تعلیمی وتربیتی ادارے ہیں اور ہمارے ساتھ اسی حیثیت میں مکالمہ کیا جائے۔ دونوں مجالس کے تین شرکاء نے اس پر قومی اخبارات میں لکھا ہے، میں ان باتوں کی تکرار سے حتی الامکان اجتناب کروں گا۔
مفتی محمد نعیم نے تجویز پیش کی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے، ہم نے بعد میں اُن سے پوچھا: آپ کو یہ تجویز پیش کرنے کا اختیار کس نے دیا، جبکہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی رکن پانچوں تنظیمات کے قائدین خود موجود تھے، انہوں نے کہا: ڈاکٹر قبلہ ایاز میرے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: میرا نام تجویز کردیں، سو میں نے کردیا۔ دراصل اسلام آباد میں مناصب پر رونق افروز بیوروکریٹس بہت ہوشیار ہوتے ہیں، وہ ایک منصب کو اپنے پنجوں میں مضبوطی سے پکڑے ہوتے ہیں اور عُقابی نگاہوں سے دوسرے منصب کی تاک میں رہتے ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے، جھپٹ لیں، مثلاً: ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈاکٹر ضیاء الحق ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے کسٹوڈین بن گئے اور اس کی مارکیٹنگ شروع کردی۔ خورشید ندیم نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا: یہ تو میں نے مرتب کیا تھا، ڈاکٹر ضیاء الحق اچانک عالَم غیب سے نمودار ہوئے اور اُسے اُچک لیا، ہمارا کہنا یہ ہے کہ ابتدائی مسوّدہ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان نے مرتّب کر کے دیا تھا، اس کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے اور اخبارات میں شائع بھی ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز تمام لبرل این جی اوز کے مشترکہ ’’ماموں جان‘‘ ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپ کے مالی وسائل سے مالا مال این جی اوز خود رو گھاس کی طرح منظر عام پر آئیں، کیری لوگر بل کی چار ارب ڈالر گرانٹ کا ایک معتد بہ حصہ تو امریکا نے خود سوشل سیکٹر کے لیے مختص کردیا تھا۔ اگر 2002 سے اسلام آباد کے تھری اسٹار سے فائیو اسٹار ہوٹلوں کا ریکارڈ کھنگالا جائے، تو پتا چلے گا کہ ان این جی اوز کی برکات سے وہ بھی مستفید ہوئے ہیں۔ ان لبرل این جی اوز کو جن مقاصد کے لیے مالی وسائل دیے جاتے ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے: یہ لوگ امریکا اور اہلِ مغرب کو یقین دلاتے ہیں کہ دینی مدارس وجامعات اور ملّا نامی مخلوق ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور ہم ان کو ترغیب وترہیب کے ذریعے دام میں لارہے ہیں، پنجابی محاورے کے مطابق ’’بندے دا پتر‘‘ اور اردو محاورے کے مطابق ’’اچھے بچے‘‘ بنارہے ہیں۔ شروع میں ہم نے بھی چند پروگراموں میں شرکت کی، مگر جب اُن کے مالی ذرائع معلوم ہوئے، تو پتا چلا کہ ان کی دُم واشنگٹن، بون، اوسلو، الغرض کسی نہ کسی مغربی دارالحکومت میں پھنسی ہوتی ہے۔ بعض کی کارگزاریاں وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر سامنے آئیں، چنانچہ ہم نے اپنی عزت بچانے کے لیے توبہ کرلی۔ بہت سے سطحی تجزیے پڑھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل میں دینی مدارس کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک سیمینار تجویز کیا گیا، اُس کی اسپانسر CODE نامی ایک این جی او تھی۔ اس میں دو وفاقی وزرا شفقت محمود اور ڈاکٹر پیر نورالحق قادری مدعو تھے، ہمیں بھی دعوت ملی، ہم نے کہا: ’’این جی او مدارس کی کسٹوڈین کب سے بنی، اُسے مدارس کے مسائل حل کرنے کے لیے اختیار کس نے تفویض کیا۔ ظاہر ہے این جی او کو اپنے اسپانسرز کو مطمئن کرنے کے لیے یہ سیشن دکھانا تھا اور ڈاکٹر قبلہ ایاز کی پروجیکشن بھی ہوجاتی۔
ہم نے کہا: وفاقی وزرائے کرام اگر ہم سے مکالمہ چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے دفتر میں بلائیں، ہمارے ساتھ اجلاس منعقد کریں، کیا ہماری حکومتوں کو بھی اب این جی اوز چلایا کریں گی۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ازراہِ کرم خود بھی مجھے ٹیلی فون کیا کہ اصل بات چیت تو آپ لوگوں کو کرنی ہوگی۔ میں نے اُن سے معذرت کی کہ این جی اوکا نمک ہم سے ہضم نہیں ہوسکتا، ہمارا مسئلہ امریکا اور یورپ سے نہیں ہے کہ اُن کے ’’ریزہ چیں‘‘ لوگوں کے ساتھ مکالمہ کریں، ہمارے مسائل کا تعلق ہماری اپنی حکومت سے ہے‘‘۔ اس کے بعد ہمیں معلوم نہیں کہ وہ اجلاس ہوپایا‘ یا نہیں، لیکن اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین نے اس سیمینار میں شرکت سے معذرت کرلی۔
جنرل پرویزمشرف کے دور میں مغرب سے وافر پیسا آیا تاکہ پاکستان کے اسکولوں کا نصاب بہتر بنایا جائے، دروغ برگردنِ راوی اس منصوبے کے لیے اربوں روپے مختص ہوئے۔ مجھے ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا، مختلف کلاسوں کے لیے اسلامیات اور عربی کے نفاذ کے لیے ایک کمیٹی قائم تھی، اس میں نامی گرامی پی ایچ ڈی اسکالرز شامل تھے۔ میں نے پوچھا: آپ لوگوں نے نماز پڑھنے کا طریقہ کسی کلاس میں سکھایا ہے، انہوں نے ایک کلاس کی اسلامیات کی کتاب میں نماز کا عنوان نکالا: اس میں چند لائنیں ان عنوانات پر تھیں: اذان، تکبیر، قرأت، رکوع، سجود اور بس۔ میں نے کہا: ’’آپ کو تو یہ پیسا اس لیے دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو دین کی ضروری تعلیم دے دیں تاکہ انہیں ملّا سے دور رکھا جاسکے، جب آپ نماز ہی نہیں سکھائیں گے تو وہ پکا نمازی بن سکے یا نہ بن سکے، والدین اُسے نماز سکھانے کے لیے ضرورکوئی تدبیر کریں گے، کسی مسجد، مکتب یا مدرسے میں لازماً بھیجیں گے‘‘۔
یہ ناتمام کام کرنے کی دانش یہ ہے کہ ایسی تخیُّلاتی نماز کا تصور پیش کیا جائے کہ کوئی مکتبِ فکر ناراض نہ ہو اور بچوں کو نماز بھی نہ آئے۔ میں نے ان سے کہا: ’’جمہوری اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان میں اکثریت فقہِ حنفی کے ماننے والوں کی ہے، آپ فقہِ حنفی کے مطابق نماز کا پورا طریقہ اور ضروری مسائل درج کردیں، اذان اور نماز میں اہلِ حدیث اور اہلِ تشیُّع کے جو امتیازی مسائل ہیں، وہ بھی درج کردیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن سب کو خوش کرنے کے لیے آپ نماز کا طریقہ ہی نہ سکھائیں تو ان شاء اللہ العزیز! یہ مدارس تاقیامت آباد رہیں گے‘‘۔ میں نے مزید پوچھا: آپ نے اُمہات المومنین کا تعارف کرایا ہے؟، کہنے لگے: ہاں ہم نے ایک کلاس میں سیدہ خدیجہ اور ایک کلاس میں سیدہ عائشہ کا مختصر تعارف کرادیا ہے، میں نے پوچھا: آپ نے خلافتِ راشدہ کا ذکر کیا ہے، کہنے لگے: خلافتِ راشدہ کا حوالہ دیے بغیر چار کلاسوں میں چاروں خلفائے کرام کا مختصر تعارف کرادیا ہے، یہ اس لیے تاکہ ایک مکتبِ فکر ناراض نہ ہو۔ میں نے کہا: آپ نہ تو تاریخ کو مسخ کرسکتے ہیں، نہ بدل سکتے ہیں، سو ساری دانشوری یہ ہے۔
(جاری ہے)