صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی، عوام با اختیار ہوں!

382

 

 

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تقریباً نو ماہ ہی ہوئے کہ اسے کمزور کرنے کی سازشیں تیز ہوگئیں اور ساتھ ہی ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت عروج پر پہنچ گئی۔ عمران خان کی حکومت کو گرانے اور کمزور کرنے کی باتیں وہ لوگ کررہے ہیں جنہوں نے حکومتوں میں رہ کر ملک وقوم کو دل کھول کر نقصان پہنچایا۔ میں ان سیاسی عناصر کی بات کررہا ہوں جو اپنے سوا ہر ایک کا احتساب کرنے اور کرپشن سمیت کسی بھی الزام میں کسی کو بھی فوری گرفتار کرنے کی حمایت کرتے رہے۔ کل تک جب کراچی آپریشن کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اہم لیڈروں کو دہشت گردوں کا علاج کرنے، ان کی مالی مدد کرنے اور لوٹی ہوئی رقم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا یا اس کی کوشش کی جارہی تھی تو کو شاید میاں محمد نواز شریف کو اپنی گرفتاری کا شائبہ تک نہیں ہوگا۔ وہ اس وقت وزیر اعظم تھے اور کرسی کے مزے لے رہے تھے۔ جبکہ آصف زرداری کو میاں نواز شریف کی اخلاقی مدد کی ضرورت تھی۔ شاید آصف زرداری، میاں شریف سے مدد مانگتے ہوئے یہ بات بھول گئے تھے کہ سیاست سے اخلاق کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس میں تو سب ناجائز بھی جائز ہوتا ہے۔ آصف زرداری 25 جون 2015 کو نوازشریف کی لاتعلقی والے رویے کو دیکھ کر جس طرح سے دبئی جانے پر مجبور ہوئے تھے شاید وہ دن آج بھی انہیں یاد ہے۔ تب ہی وہ اب تک نواز شریف سے ملاقات کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہوں گے لیکن واقفانِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اس سے بہت دور ہوجاتے ہیں یا کر دیا کرتے ہیں۔ اپنی ضد میں ساری پرانی باتیں اور یادیں بھلا دیتے ہیں۔
اتفاق دیکھیے کہ آج میاں صاحب مشکل میں ہیں اس کے باوجود نہ وہ خود آصف زرداری سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی آصف زرداری سیاسی بڑے بھائی میاں صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے دونوں سیاسی اور جسمانی طور کمزور ہوچکے ہیں۔ ایک لیڈر اپنی بیٹی سے تو دوسرا اپنے بیٹے کی ضد کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلے جارہا ہے مگر اس کا اظہار کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں عمران خان کی حکومت کی معمولی کمزوری بھی ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنماء ہی نہیں بلکہ دوسرے اور تیسرے درجے کے لیڈرز کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ایسی صورت میں ملک کی پہلی طاقتور اپوزیشن نے ’’صدارتی نظام‘‘ کا مچا دیا ہے۔ شاہ محمود قریشی سمیت کئی وزراء صدارتی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے یہی سوال کرچکے ہیں کہ ’’صدارتی نظام کیسے آسکتا ہے‘‘۔ ایسے کسی نظام کو لانے کے لیے پارلیمنٹ ہی فیصلہ کرسکتی ہے جبکہ پارلیمنٹ کے متعدد اراکین صدارتی نظام کے مخالف ہیں۔ اس نظام کی ہوا کیوں اور کس نے چلائی یہ بات کہنا مشکل ہے لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ایک پرانی گفتگو کے حوالے سے یہ بات عام کی جارہی ہے کہ عمران خان صدارتی نظام کے حق میں ہیں۔ حالاں کہ عمران خان نے یہ بات اس وقت ایک ٹی وی چینل کو کہی تھی جب وہ وزیراعظم نہیں تھے بلکہ موجود مخالفین کی طرح وہ خود حکومت کے مخالف تھے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں جب عمران خان ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں انہیں صدارتی اور پارلیمانی نظام کے بارے میں اپنا تازہ موقف جلد از جلد پیش کرنا ہوگا۔ عمران خان اگر 2011 کے اپنے اس بیان پر اگر آج بھی قائم ہیں تو پھر ہم سب کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان ایک طے شدہ پروگرام کے تحت وزیراعظم بنے ہیں یا بنائے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ جمہوری نظام جس آئین کے تحت چل رہا ہے اس میں ملک اور قوم کے لیے آسانیاں کم اور نقصانات زیادہ ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک میں تمام اہم اداروں کو ان کی حیثیت اور ذمے داریوں کے مطابق اختیارات تک محدود کیے بغیر نہ صرف جمہوری نظام دباؤ میں رہ کر ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے اسی طرح صدارتی نظام حکومت بھی جلد یا بدیر ناکام و رسوا ہوجائے گا۔ ملک میں ایوب خان نے پارلیمانی نظام ختم کرکے صدارتی نظام قائم کردیا تھا مگر چوں کہ اس صدارتی نظام میں جمہوریت کے اسکیل کو اس قدر ڈی گریڈ کرکے بنیادی جمہوریت کا نام دیا گیا تھا اس لیے وہ بھی تادیر نہیں چل سکا۔ موجودہ پارلیمانی نظام اگر کسی کو خراب نظر آرہا ہے تو ان وجوہ میں سب سے بڑی وجہ خود رکن پارلیمنٹ ہے جو ایوان میں بیٹھ کر عوام کو بھول جاتا ہے بلکہ اپنے ایوان میں پہنچنے کے ان مقاصد کو پس پشت ڈال دیتا ہے جس کے لیے وہ یہاں پہنچا یا لوگوں اسے اپنے ووٹوں کے ذریعے پہنچایا۔
میرا خیال ہے کہ صدارتی نظام کا بھی ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں تجربہ کیا جاچکا ہے۔ جبکہ پارلیمانی نظام حکومت صدارتی نظام کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ ان دونوں حکومتی ادوار میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نمایاں رہا جس کی وجہ سے دونوں نظام حکومت اسی کے دباؤ میں یا اس کے ساتھ مفاہمت کرکے ہی چلتی رہیں۔ گو کہ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ نظام حکومت صدارتی ہو یا پارلیمانی عام افراد کو آزادانہ طور پر اس کا حق ملنا چاہیے۔ جب تک عام آدمی کو اس کا حق نہیں ملتا اور وہ بااختیار نہیں ہوتا کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ صدارتی یا پارلیمانی نظام کے تحت سب سے پہلے آئیں کو ایسا بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت عام آدمی بااختیار بھی ہوجائے اور اسے اس کے حقوق بھی مل جائیں۔ نظام ایسا بنایا جائے کہ عام آدمی خود کو بااختیار محسوس کررہے۔ وہ کہہ اٹھے کہ حکومت مجھ سے ہے اور میں حکومت ہوں۔ اللہ کے واسطے ایک بار ایسا کرکے تو دیکھیں۔ جب محلے کی سطح کے اختیارات اور ذمے داریاں محلے والوں، علاقے کے اختیارات و ذمے داریاں علاقے والوں، اضلاع کے اختیارات اور ذمے داریاں اور شہروں کے اختیارات و ذمے داریاں شہر والوں یعنی منتخب مقامی لوگوں کے پاس ہوں گے تو ملکی سطح کی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور مسائل کا سدباب بھی ہوسکے گا۔ لیکن شرط ہے کہ ہر ایک کا احتساب ان ہی کی سطح پر سختی سے کیا جائے۔