بلوچستان، دہشت گردی کی نئی لہر

309

 

 

کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی میں خودکش حملے کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل کو مکران کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے مقام پر مسلح افراد نے بسوں سے مسافروں کو اتارا۔ شناختی کارڈ دیکھے، ان میں سے 16 افراد کو شناخت کرکے ہمراہ لے جایا گیا۔ جہاں ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر سر اور جسم کے مختلف حصوں میں گولیاں مار کر فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ دو افراد البتہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیویز ناکے پر پہنچ کر ان کی جانیں بچ گئیں۔ مقتولیں میں سے 10 کا تعلق پاکستان نیوی، تین کا پاکستان ائر فورس اور ایک پاکستان کوسٹ گارڈز کا ملازم تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد چالیس سے زاید تھی، جو فورسز کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریل گاڑیوں، مسافر بسوں پر بڑے دلخراش حملے ہوچکے ہیں۔ فورسز کا محاصرہ کرنا، بعد ازاں انہیں اذیت ناک طریقے سے قتل، لاشوں کی بے حرمتی، کراہتے زخمیوں کی ویڈیو بناکر تشہیر کے لیے عام کیا جاتا۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے و الے افراد اور غیر قانونی طریقے سے ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بھی ان کے ہتھے چڑھتے ہیں تو بڑی بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے ہنر مند اور مزدوروں کے قتل کے کئی واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ، کوئٹہ کراچی شاہراہ اور مکران کوسٹل ہائی وے پر بسوں کو روک کر شناخت کے بعد پنجابی اور اردو بولنے والوں کو سنگ دلی سے موت کے گھاٹ اتارنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ خودکش حملوں، ہدفی قتل کے واقعات و سانحات الگ تفصیل رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے اغوا کی کئی وارداتوں میں ایک یو این ایچ سی آر بلوچستان کے سربراہ جان سولیکی کا اغوا بھی تھا۔ جسے دو فروری 2009ء کو اُٹھایا، تاوان لے کر 4 اپریل 2009 ء کو چھوڑا گیا۔
ان تمام واقعات میں پُر اسراریت شروع دن سے نہیں رہی، ہر تنظیم و گروہ نے ڈنکے کی چوٹ پر ذمے داریاں قبول کی ہیں۔ لسانی اور قومی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی اور تخریب کاری کو لمبا عرصہ سیاسی جماعتوں کی خاموش حمایت حاصل رہی ہے۔ چند ایک جماعتوں نے خوف کی وجہ سے مصلحت کوشی اختیار کر رکھی تھی۔ گویا معلوم لوگ اور تنظیمیں اس ظلم اور شقاوت میں ملوث رہی ہیں، جو اب بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ہوئے ہیں، قتل ہوئے ہیں بڑے بڑے کمانڈر کو فورسز نشانہ بناچکی ہے بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو افغانستان، ایران اور دوسرے ملکوں کو فرار ہوچکے ہیں۔ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی کر نے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان گروہوں کے لوگوں نے افغانستان کو جائے پناہ بنا رکھا ہے۔ مذہبی گروہوں سے وابستہ نوجوان مقامی ہیں۔ جن کا صوبے کے مختلف اضلاع و علاقوں سے تعلق ہے۔ ان تنظیموں کا زور توڑا جا چکا ہے۔ تاہم نیا نیٹ ورک بنتا ہے تو کچھ ہی عرصہ میں ختم کردیا جاتا ہے، مارے یا پکڑے جاتے ہیں بہر حال یہ کوئی نہ کوئی واردات کر ہی لیتے ہیں۔ ہزارگنجی کا حالیہ سانحہ اس کی مثال ہے ظاہر ہے کہ اس کی ذمے داری اُس تنظیم نے قبول کی ہے جو برسوں سے ہزارہ عوام، اہل تشیع، پولیس اور فورسز پر حملہ کرتی آرہی ہے اور برابر ذمے داریاں قبول کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں حکومت، پولیس، ایف سی اور جاسوسی کے اداروں کی غفلت، کوتاہی ہو پر اعتراض اور گرفت ہونی چاہیے۔ یعنی برحق احتجاج اور انگشت نمائی عوام کا حق ہے۔ ان کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرلینا چاہیے۔ مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ کوئی دہشت گرد نامعلوم نہیں ان کے چہرے نمایاں ہیں، یہ حقیقت سیاسی جماعتوں پر بھی عیاں ہے۔ جان بوجھ کر سیاسی اغراض کے تحت تسلیم نہیں کرتے تو یہ الگ بات ہے۔ چناں چہ ہونا یہ چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلاف ایک منظم قوم کے طور پر آواز بلند کی جائے۔
ہزارگنجی سانحہ کے بعد چند لوگوں کا احتجاج افسوسناک ہے۔ جنہوں نے ریاست مخالف فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اصولی طور پر احتجاج افغان حکومت کے خلاف ہونا چاہیے تھا کہ جہاں ان جتھوں سے وابستہ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ جہاں افغان کٹھ پتلی حکومت اور امریکیوں کی عملداری قائم ہے۔ جہاں بھارت کا بھی توتی بولتا ہے اور حکومت وخفیہ ادارے بھارت کی چابی پر حرکت کرتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کے اندر سبوتاژ اور امن کو تہہ و بالا کرنا مقصد بنا رکھا ہے۔ ہزارگنجی سانحہ کے بعد ناپسندیدہ و قابل سرزنش سلوگنز بلند کیے گئے۔ یہ سب کچھ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہوا۔ حالاں کہ ہزارہ عوام کو بخوبی علم ہے کہ حکومت و ریاست کی جانب سے ان کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن بندوبست کیا جاچکا ہے۔ اس عمل پر بھاری سرمایہ صرف ہورہا ہے۔ بڑی نفری ان کی آبادیوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ زائرین کو سیکورٹی حصار میں پاک ایران سرحد لایا اور لے جایا جاتا ہے۔ بات اگر دہشت گرد حملوں کی، کی جائے تو اس سے کوئی محفوظ نہیں رہا ہے، حتیٰ کہ سیکورٹی فوسز بھی۔ اورماڑہ میں فوج کے جوانوں کا بھی بے دردی سے قتل تازہ مثال ہے۔ ہزارہ عوام سے اظہار یکجہتی و تعزیت کے لیے وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی، وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی، (سابق) وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری، آئے۔ شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ خود دھرنے کے شرکاء کے پاس گئے۔ بلاول، لیاقت بلوچ، سردار اختر مینگل اور دوسرے رہنماء بھی ان کے پاس گئے۔ البتہ بعض رہنماؤں نے حقائق کے برعکس سیاسی گفتگو کی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا یقیناحکومت قانون نافذ کرنیوالے ادارے تنقید سے بالاتر نہیں ہیں تاہم یہاں حقائق کو چھپانا سیاسی جماعتوں اور قائدین کو بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ امر یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کالعدم تنظیمیں خواہ وہ کسی بھی نام و حیثیت کی حامل ہوں کو سیاسی اور مذہبی سر گرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی و دینی جماعتیں بھی ان جماعتوں سے کسی قسم کا میل میلاپ نہ رکھیں۔ اورماڑہ واقعہ کی ذمے داری بلوچ کالعدم تنظیموں کے اتحاد، بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے قبول کی ہے۔ اس اتحاد میں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔ اس سے قبل دسمبر 2018ء میں ایرانی سرحد کے قریب کیچ کے علاقے بلیدہ میں ایف سی کے چھ اہلکاروں کے قتل کی ذمے داری انہی تنظیموں نے قبول کی تھی۔ حملہ آور ایرانی حدود سے آئے اور حملے کے بعد ایران کی حدود میں چلے گئے تھے۔ پاکستان نے ایران کی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔ چوں کہ بلوچ شدت پسند ایران کی سرزمین میں بھی کیمپ رکھتے ہیں۔ پاکستان ایرانی حکومت کو سرحد پار لاجسٹک بیسز سے آگاہ بھی کر چکا ہے چناں چہ اورماڑہ واقعہ کے بعد بھی پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کو مراسلہ بھیجا جس میں ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے ایران سرحد پر بھی باڑ لگانا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں ایران کی حکومت کو بھی کہا ہے کہ وہ بھی جہاں جہاں ضروری ہو باڑ لگانے کا کام شروع کرے تاکہ مل کر دہشت گردی جیسے مسائل پر قابو پایا جائے۔