اور اب پانی سے علاج ہوگا

250

وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے انکشاف کیا ہے کہ پانی خدا کی انمول نعمت ہے، زندگی کی بقا کا دارومدار اسی پر ہے، ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے سو، محترمہ نے قوم کی بقا کے لیے یہ حکم جاری فرمادیا ہے جس کے تحت سرکاری اسپتالوں میں پانی کی کمی قابل تعریز قرار دی گئی ہے، ان کا حکم نامہ پڑھ کر ہمیں سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار بہت یاد آئے وہ بھی ایسے ہی فرمان جاری فرماتے رہتے تھے۔ ان کے احکامات کا تعلق نظام عدل سے نہیں ہوتا تھا اس لیے انصاف کی فراہمی تو ممکن نہ ہوسکی مگر کچھ اداروں میں سدھار کی بُری بھلی صورت ضروری دکھائی دینے لگی مثلاً اسپتالوں میں مریض اور ان کے ساتھ آنے والوں کے لیے بینچوں کا اہتمام اس شان و شوکت سے کیا گیا کہ بینچوں کی تعداد مریضوں سے زیادہ ہوگئی۔ ہم نے بارہا انہی کالموں میں کہا ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب! انصاف کی فراہمی کے لیے مناسب اقدامات کرتے تو عدالتی کارکردگی تمام اداروں پر خوشگوار اثرات مرتب اور عدلیہ کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے رقم ہوتا، مگر محترم ثاقب نثار عدلیہ سے زیادہ دیگر اداروں میں دلچسپی لیتے رہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انہوں نے انصاف کو گھر کی مرغی سمجھ رکھا تھا۔
یاسمین صاحبہ جب سے وزیر صحت پنجاب بنی ہیں اسپتالوں میں ادویات ناپید اور عوام کی صحت روپے کی قدر کی طرح گرتی جارہی ہے۔ ممکن ہے انہوں نے مریضوں کا علاج پانی سے کرنے کا منصوبہ بنایا ہو۔ وکٹوریہ اسپتال بہاولپور میں دل کے مریضوں کو 15 یوم کی ادویات دی جاتی تھیں اور اب 3 دن کی دوا دی جاتی ہے اور وہ بھی نسخے کے مطابق نہیں ہوتیں، اگر ڈاکٹر پانچ چھ ادویات تجویز کرے تو ایک دو ہی ملتی ہیں باقی دوائیں میڈیکل اسٹور سے خریدنے کی ہدایت ملتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے انسولین زندگی بچانے والی دوا کی حیثیت رکھتی ہے، محترمہ کی درخواست سے قبل انسولین کی کوئی کمی نہیں تھی جب سے محترمہ نے صحت کی وزارت کا قلمدان سنبھالا ہے شوگر کے مریضوں کی طبیعت سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے۔ چند دنوں سے انسولین دستیاب ہونے لگی ہے مگر اس کے ساتھ ہی مریضوں کو ذہنی اذیت بھی دی جارہی ہے، حالاں کہ اس حقیقت سے ڈاکٹر ہی نہیں عام آدمی بھی خوب واقف ہے کہ شوگر کے مرض میں بلڈپریشر بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے لواحقین کوشش کرتے ہیں کہ مریض کو ذہنی پریشانی نہ ہو مگر محترمہ کے دور اقتدار میں شوگر اور دل کے مریضوں کو جان بوجھ کر ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ مریضوں کے ساتھ جو سلوک سرکاری اسپتالوں میں کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انہیں ووٹ اہل لاہور نے نہیں دیا جس کی سزا وہ پورے پنجاب کو دینے پر کمربستہ ہیں۔ اپنی انتخابی شکست کا بدلہ مریضوں سے لے رہی ہیں۔ سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ جس امیدوار کو عوام مسترد کردے اسے کوئی عہدہ، کوئی وزارت نہیں ملنا چاہیے کیوں عوام اسے اس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ شوگر کے مریض کی شوگر اور بلڈ پریشر بڑھ جائے تو برین ہیمرج کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہم ایک صاحب سے واقف ہیں جن کا کوئی عزیز شوگر اور بلڈ پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے برین ہیمرج کا شکار ہوچکا ہے وہ تقریباً دس پندرہ سال سے انسولین لیتے آرہے ہیں، اس بار آئے تو کہا گیا مریض لے کر آﺅ، اس نے کہا مریض تو مفلوج ہے، نہیں آسکتا۔ متعلقہ شعبے کے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا گیا تو ہدایت کی گئی کہ ایک بار مریض کو لے آﺅ۔ میں لکھ دوں گا کہ مریض چل نہیں سکتا، اس کے کسی عزیز کی انسولین دے دیا کرو، مرتا کیا نہ کرتا۔ مریض کو اُٹھا کر جیسے تیسے اسپتال لایا گیا اور یوں انسولین کی دستیابی کی صورت نکل آئی۔